انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ماں کے عالمی دن پر ماؤں کا ساتھ دینے کی چند بڑی وجوہات

سال 2020 میں دوران زچگی 278,000 خواتین کی اموات واقع ہوئی۔
© UNICEF/Mark Naftalin
سال 2020 میں دوران زچگی 278,000 خواتین کی اموات واقع ہوئی۔

ماں کے عالمی دن پر ماؤں کا ساتھ دینے کی چند بڑی وجوہات

خواتین

دنیا بھر میں بہت سی ماؤں کے لئے مئی کا مہینہ سال کا ایسا وقت ہوتا ہے جب اظہار تشکر کے ساتھ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔

لیکن دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کے لئے یہ ممنونیت کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ بات اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) نے ماؤں کے عالمی دن پر کہی ہے جو مئی کے مہینے میں ہر اتوار کو منایا جاتا ہے۔

حال ہی میں جاری ہونے والی معلومات کے مطابق ہر دو منٹ کے بعد ایک خاتون حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر جاتی ہے جبکہ ایسی بیشتر اموات بڑی مقدار میں خون بہہ جانے اور انفیکشن جیسی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس بھی بدترین بات یہ ہے کہ ان مسائل کے حل دہائیوں سے موجود ہیں، لیکن یہ خاندانی منصوبہ بندی کے لئے فوری سرمایہ کاری اور دنیا میں دائیوں کی شدید کمی پر قابو پانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ 'یو این ایف پی اے' نے بتایا ہے کہ دائیوں کی بدولت زچگی میں دو تہائی خواتین اور نومولود بچوں کی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ کینم نے کہا ہے کہ ''ہمارے پاس زچگی کی ایسی اموات کو روکنے کے لئے ذرائع، علم اور وسائل موجود ہیں جنہیں روکا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں صرف سیاسی ارادے کی ضرورت ہے۔''

ذیل میں جانئے کہ اس وقت ماؤں کو پہلے سے کہیں زیادہ مدد کی ضرورت کیوں ہے۔

عام طور پر خواتین اور لڑکیاں حاملہ ہونے کا فیصلہ خود نہیں کرتیں۔
© UNFPA/ARTificial Mind/Cecilie
عام طور پر خواتین اور لڑکیاں حاملہ ہونے کا فیصلہ خود نہیں کرتیں۔

زچگی میں اموات کی بحرانی سطح

'یو این ایف پی اے' کے مطابق 2015 اور 2000 کے درمیان دنیا بھر میں زچہ کی اموات میں ایک تہائی سے زیادہ کمی آئی لیکن اس کے بعد متعدد خطوں میں یہ کمی اسی سطح پر برقرار ہے اور دیگر جگہوں پر یہ الٹا بڑھنے لگی ہے۔

اس کا نتیجہ 2020 میں دوران زچگی 278,000 خواتین کی اموات کی صورت میں نکلا۔ ادارے کے مطابق اگر اتنی بڑی تعداد میں اموات کسی قدرتی حادثے یا کسی دوسرے بحران کے نتیجے میں واقع ہوئی ہوتیں تو اسے میڈیا میں نمایاں شہرت ملتی۔
 

'یو این ایف پی اے' کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ''یہ ناقابل قبول بات ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں خواتین حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران غیرضروری طور پر موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک ہی سال میں 280,000 سے زیادہ جانوں کا نقصان اتفاقیہ نہیں۔ ہم بہتری لا سکتے ہیں اور ہمیں لانی چاہئے۔''

انتخاب کی کمی

ادارے کا کہنا ہے کہ عام طور پر خواتین اور لڑکیاں خود حاملہ ہونے کا فیصلہ نہیں کرتیں۔

68 ممالک میں شادی شدہ یا مرد ساتھیوں کے ساتھ رہنے والی ہر دس خواتین میں سے چار کو اپنی مرضی سے طبی نگہداشت، جنسی عمل یا مانع حمل لینے کا اختیار نہیں ہے۔ دریں اثنا، بعض معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسی زیادتی کے نتیجے میں ٹھہرنے والے حمل بھی اتنی ہی تعداد میں ہوتے ہیں جتنے باہمی رضامندی سے ہونے والے حمل سامنے آتے ہیں۔

ادارے کے مطابق، یہ عوامل اور دیگر ایک نظرانداز شدہ عالمی بحران کا باعث بنتے ہیں جس میں دنیا بھر میں تقریباً نصف حمل بلاارادہ ہوتے ہیں اور اس سے متاثرین کی بڑی تعداد پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

'یو این ایف پی اے' نے کہا ہے کہ حمل اور زچگی کی پیچیدگیاں جان لیوا ہو سکتی ہیں اور نوعمر خواتین اور لڑکیوں کے لئے یہ خطرہ خاص طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ 2021 میں تقریباً پانچ لاکھ بچے 10 سے 14 سال عمر کی لڑکیوں کے ہاں پیدا ہوئے تھے اور اس طرح لاکھوں لڑکیاں اپنے بچپن میں ہی مائیں بن گئیں۔

نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ بلاارادہ حمل کی بہت بڑی تعداد خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی انسانی حقوق قائم رکھنے میں عالمگیر ناکامی کا اظہار ہے۔

انڈیا کے ایک علاقے میں مائیں بیٹیوں کی پیدائش کی خوشی میں ان کو ساتھ لے کر جنگل میں پودے لگانے جا رہی ہیں۔
UN India
انڈیا کے ایک علاقے میں مائیں بیٹیوں کی پیدائش کی خوشی میں ان کو ساتھ لے کر جنگل میں پودے لگانے جا رہی ہیں۔

نظرانداز ترجیحات

'یو این ایف پی اے' کے مطابق، نومبر 2022 میں دنیا کی آبادی آٹھ بلین ہو گئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اسے صحت کے شعبے میں ترقی اور غربت میں کمی کا نتیجہ قرار دیا جبکہ دیگر کو یہ سوچ کر پریشانی لاحق ہوئی کہ کرہ ارض پر لوگوں کی تعداد ''بہت زیادہ'' یا ''بہت کم'' ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس سوچ کے مطابق واضح طور پر خواتین کا جسم آبادی میں اضافے کے مفروضہ مسئلے کا حل ہے اور یہ ایک خطرناک تصور ہے۔ تاریخی طور پر یہ توجیہ خواتین کی تولیدی اہلیت پر اثرانداز ہونے کے لئے جابرانہ پالیسیاں وضع کرنے پر منتج ہوئی ہے جس سے ان کی خواہشات کا استرداد اور ان کے حقوق کو خطرہ ہوتا ہے۔

2023 میں دنیا کی آبادی سے متعلق 'یو این ایف پی اے' کی رپورٹ '8 ارب مضبوط لوگ' کے مطابق بہت سی خواتین اپنے بچوں کی موجودہ تعداد سے زیادہ بچوں کی خواہش رکھتی ہیں یا وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

مثال کے طور پر ذیلی صحارا افریقہ کے بیشتر ممالک میں خواتین نے بتایا ہے کہ انہوں نے اپنی خواہش کے خلاف مزید دو یا اس سے زیادہ بچوں کو جنم دیا ہے جبکہ جاپان میں بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد بچے پیدا کرنا چاہتی ہے۔

مزید برآں، رپورٹ کے مطابق کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہر چار میں سے ایک خاتون اپنی مرضی کی تعداد میں بچے پیدا کر رہی ہے۔

ادارے نے کہا ہے کہ "بدقسمتی سے کوئی خواتین اور ماؤں سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں یا نہیں یا کتنے بچے چاہتی ہیں۔"

صنفی مساوات سے آغاز

دنیا کو صںفی اعتبار سے مزید مساوی جگہ بنا کر زچگی میں ایسی اموات جنہیں روکا جا سکتا ہے، حقوق سے انکار یا آبادی میں تبدیلی جیسے تمام عوامل سے نمٹنا ممکن ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ یقیناً یہ بات کہنا آسان اور اس پر عمل کرنا مشکل ہے لیکن متذکرہ بالا مسائل سمیت بہت سی خرابیوں کے پیچھے صنفی عدم مساوات کے کردار کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

ادارے کے مطابق، صنفی عدم مساوات خواتین کو افرادی قوت اور سکولوں سے خارج رکھتی ہے، انہیں جنگ اور تشدد میں غیرمحفوظ اور کمزور بناتی ہے اور انہیں اپنے جسم اور صحت کے بارے میں فیصلوں کے حق سے محروم کر دیتی ہے۔ اسی کی وجہ سے حمل ایک مشکل عمل بن جاتا ہے جس کی بدولت لاکھوں خواتین کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔

"یو این ایف پی اے" نے کہا ہے کہ "جب آپ ماؤں کی زندگیاں بچانے کے لئے کئے جانے والے کام کے ذریعے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو جواب میں وہ خوشحالی پا کر آپ کا جوابی شکریہ ادا کریں گی۔''