انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سکول جانے سے محروم بارہ کروڑ لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں: ملالہ

نوبیل انعام یافتہ اور اقوام متحدہ کی سفیرِ امن ملالہ یوسفزئی اقوام متحدہ کی نائب سربراہ امینہ محمد کے ساتھ نائجیریا کے تعلیمی مرکز میں طلباء کے ساتھ۔
© UNIC/Akinyemi Omolayo
نوبیل انعام یافتہ اور اقوام متحدہ کی سفیرِ امن ملالہ یوسفزئی اقوام متحدہ کی نائب سربراہ امینہ محمد کے ساتھ نائجیریا کے تعلیمی مرکز میں طلباء کے ساتھ۔

سکول جانے سے محروم بارہ کروڑ لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں: ملالہ

ثقافت اور تعلیم

نوبیل انعام یافتہ اور اقوام متحدہ کی سفیرِ امن ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ 120 ملین سے زیادہ لڑکیاں سکول جانے سے محروم ہیں اور دنیا کو انہیں تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔

ملالہ نے یہ بات اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں 'ملالہ ڈے' پر ناخواندگی، غربت اور دہشت گردی کے خلاف عالمگیر اقدامات کے مطالبے پر مبنی اپنے تاریخی خطاب سے پورے 10 سال کے بعد نائیجیریا کے شہر ابوجہ میں کہی ہے۔

Tweet URL

پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملالہ فروغِ تعلیم کے لیے کام کرتی ہیں جنہیں ان کی سرگرمیوں پر طالبان نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ 

پُرجوش پیغام

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے ملالہ کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرحدوں، ثقافتوں اور نسلوں سے ماورا ہیں اور ان کا پیغام اور جذبہ ہر جگہ لوگوں تک پہنچا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ملالہ ہمیں ایسی دنیا کا تصور کرنے کی جرات دلاتی ہیں جس میں عدم برداشت نہ ہو اور جو فہم اور احترام سے عبارت ہو۔ وہ ایسی دنیا کی بات کرتی ہیں جس میں نفرت کم اور انسانیت زیادہ ہو۔ ایسی دنیا جس میں تعصب کم اور مساوات زیادہ ہو۔ ایسی دنیا جس میں جہالت کم اور تعلیم اور علم زیادہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور ملالہ دونوں جانتے ہیں کہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے معیاری تعلیم ایک خواب نہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حق ہے۔ 

لڑکیوں کی تعلیم 

ایک دہائی پہلے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے بعد ملالہ نے ہائی سکول اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی، 30 سے زیادہ ممالک کا سفر کیا اور لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے اپنے نام سے فنڈ قائم کیا۔ 

ابوجہ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سی تقاریر کی ہیں اور مجھے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا ہے۔ اس دوران میں نے دنیا کی توجہ اپنے جیسی لڑکیوں کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ تقریباً 120 ملین لڑکیاں غربت، پدرشاہی رویوں، موسمیاتی حوادث اور مسلح تنازعات کے باعث تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ 

اس دوران ملالہ نے اپنے یوم پیدائش پر مختلف ممالک کا سفر کیا اور وہاں مقامی لڑکیوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان میں اردن، عراق، کینیا اور روانڈا میں پناہ گزین اور برازیل میں قدیمی مقامی نسلوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ 

انہوں نے نائجیریا ہی کے تین دورے کیے اور اس دوران حقوق کے کارکنوں اور لڑکیوں سے ملاقاتیں کیں۔ وہ اُن 276 لڑکیوں کے والدین سے بھی ملیں جنہیں 2014 میں چیبوک کے سکول سے اغوا کر لیا گیا تھا۔

نائجیریا کے لیفیا سریری لرننگ سنٹر کی طالبات نے ملالہ کو ان کا پورٹریٹ تحفے میں دیا۔
© UNIC/Akinyemi Omolayo
نائجیریا کے لیفیا سریری لرننگ سنٹر کی طالبات نے ملالہ کو ان کا پورٹریٹ تحفے میں دیا۔

خوشی اور مسائل 

ملالہ نے بعض ایسی لڑکیوں کی داستانیں بھی سنائیں جن سے ان برسوں میں ان کی ملاقات ہوئی اور جنہوں نے ناصرف یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کیں بلکہ اپنا کام بھی شروع کیا۔ 

ملالہ نے کہا کہ یونیورسٹی جانے، نوکری کرنے اور اپنی مرضی سے اور مرضی کے وقت پر شادی کا فیصلہ کرنے والی لڑکیوں کی ہمت اور جرات کا اعتراف ہونا چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خود کو یہ سوچ کر دھوکہ نہ دیا جائے کہ ہم نے کافی ترقی کر لی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انہیں ان لڑکیوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جنہوں نے مسائل کے باوجود یہ سب کچھ کیا۔ لیکن ان کا دل ان لڑکیوں کے لیے دکھی ہو جاتا ہے جو اس میں ناکام رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان جیسی ہر لڑکی کی ایسی دوست بھی ہیں جو پیچھے رہ گئیں اور ان کی حکومتوں، معاشروں اور خاندانوں نے انہیں آگے بڑھنے نہ دیا۔

لاکھوں لڑکیاں تبدیلی سے محروم 

انہوں نے تعلیم اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے عالمگیر اقدامات کو سراہا جن سے 2030 تک تمام لوگوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے پائیدار ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان چند کامیابیوں سے یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ کووڈ۔19 وبا کے اثرات سمیت بہت سی وجوہات کے باعث لاکھوں لڑکیوں کی زندگیوں میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔ 

ملالہ نے دو سال پہلے طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کےبعد افغانستان کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔ اس سے پہلے وہاں ایک تہائی خواتین یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں تاہم آج یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کو حصول تعلیم سے روک دیا گیا ہے۔ 

انہوں ںے کہا کہ نوعمری میں ہی انہوں نے جان لیا تھا کہ ترقی سست رفتار ہو سکتی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا رخ پوری طرح واپس بھی موڑا جا سکتا ہے۔ ملک میں تمام لڑکیوں کو سکولوں سے نکال کر ان کے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے اور یہ مایوس کن صورتحال ہے۔

اقوام متحدہ کی نائب سربراہ امینہ محمد طالبات کے ساتھ مصروف گفتگو۔
© UNIC/Akinyemi Omolayo
اقوام متحدہ کی نائب سربراہ امینہ محمد طالبات کے ساتھ مصروف گفتگو۔

'تبدیلی کا محرک بنیں' 

2013 میں اقوام متحدہ میں اپنی موثر تقریر کے دوران اُس وقت 16 سالہ ملالہ نے یہ مشہور بات کہی تھی کہ 'ایک بچہ، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب پوری دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں'۔ اس کے بعد ان کی نوجوانی کی یہ امید کم ہو گئی ہے۔  

انہوں نے کہا کہ آج وہ ایسی بات بتائیں گی جو اس وقت انہیں معلوم نہیں تھی اور وہ یہ کہ ایک بچہ بہترین وسائل اور حوصلہ افزائی کی موجودگی میں بھی دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ایک صدر یا وزیراعظم بھی یہ تبدیلی نہیں لا سکتا۔ 

کوئی استاد، حقوق کے لیے کام کرنے والا کوئی ایک فرد، کوئی ایک والدین اپنے زور بازو پر دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ سچ یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل ایک فرد سے صرف شروع ہی ہو سکتا ہے۔ 

پدرشاہی نظام سے نجات

ملالہ نے ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے متحد ہونے کو کہا جہاں تمام بچوں کو 12 سالہ معیاری تعلیم تک رسائی ہو اور جہاں رہنما صنفی مساوات اور تعلیم سے متعلق اپنے وعدوں پر جوابدہ ٹھہرائے جائیں۔

انہوں نے اس حوالے سے سماجی گروہوں کی اہمیت بھی واضح کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اگر پدرشاہی سوچ اور خواتین سے نفرت کے شکنجے کو توڑ دیا جائے تو لڑکیوں کو درپیش بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ دونوں ایسے رویے ہیں جنہیں ثقافتی روایت یا مذہب کی آڑ میں چھپایا جاتا ہے۔ 

ملالہ نے انکشاف کیا کہ جب ان کی عمر 16 برس تھی تو وہ یہ تصور نہیں کر سکتی تھیں کہ آئندہ دہائی کیسی ہو گی تاہم وہ پُرامید تھیں۔ 

انہوں ںے کہا کہ آج وہ مستقبل کو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتی ہیں کیونکہ وہ مستقبل کے رہنماؤں سے مل چکی ہیں۔ لڑکیوں نے تعلیم کی طاقت کو جان لیا ہے اور وہ ہر بچے کی تعلیم تک رسائی ممکن بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ 

ملالہ کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہیں کہ اگر ان لڑکیوں کے عزم سے مطابقت پیدا کی جائے، ان کے کام کے لیے مالی مدد مہیا کی جائے اور ان کے تخلیق کردہ راستے کو اختیار کیا جائے تو آئندہ دس برس میں بہت سی ترقی دیکھنے کو ملے گی۔