سماج میں خواتین کی بامعنی اور مساوی شرکت ممکن بنائی جائے: تُرک
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں عوامی و سیاسی زندگی میں خواتین کے خلاف صنفی بنیاد پر گہرا تعصب پایا جاتا ہے جس کا خاتمہ کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہائی کمشنر وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ پدر شاہی ذہنیت کو اب قصہء ماضی بن جانا چاہیے۔ ہمارے مستقبل کا دارومدار ہر جگہ فیصلہ سازی میں خواتین اور لڑکیوں کی شمولیت پر ہے۔
ایک چوتھائی نمائندگی
انہوں ںے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ برس دنیا کی ہر فعال پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی دیکھنے کو ملی اور اب بھی ہر چار میں سے صرف ایک پارلیمان میں خواتین موجود ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا دفتر (او ایچ سی ایچ آر) جون میں عوامی و سیاسی زندگی میں خواتین کی شمولیت پر روشنی ڈال رہا ہے جو کسی موضوع پر توجہ مبذول کرانے کے ماہانہ سلسلے اور انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کو 75 برس مکمل ہونے پر کئے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔
ہائی کمشنر نے ممالک، پارلیمانی نمائندوں، ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی، نجی شعبے اور ہر متحرک شہری پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں عملی قدم اٹھائیں۔ انہوں ںے ایسے اقدامات کا سلسلہ بھی پیش کیا جو صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے کا عمل شروع کرنے کے لئے درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تعلیم اور آگاہی بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور بلامعاوضہ نگہداشت کے کام کی قدر کا بھرپور اعتراف کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو خواتین کو غیرمتناسب طور سے کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے قانون ساز اداروں، دیگر اہم اداروں اور نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے خواتین کے لئے کوٹہ، مخصوص نشستیں اور تربیتی مواقع بڑھانے پر توجہ دینے کو کہا۔
'ہراسانی ناقابل قبول ہے'
اقوام متحدہ کے معاہداتی اداروں کو صںفی مساوات کے لئے کوششیں کرنے اور سیاست میں شامل خواتین کے خلاف آن لائن اور آف لائن ہراسانی اور تشدد کے خلاف عدم برداشت کے طرزعمل کو معمول بنانے کی ضرورت ہے
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مثالی خواتین کو بھرپور انداز میں نمایاں کیا جانا چاہیے۔
پارلیمانی اداروں میں خواتین نمائندوں کی تعداد کو موجودہ رفتار سے مردوں کے برابر آنے میں 155 برس درکار ہوں گے۔ تاریخی طور پر پسماندہ خواتین کے لئے یہ جدوجہد اور بھی مشکل ہے جن کی نمائندگی بہت کم ہوتی ہے۔
ہائی کمشنر نے کہا کہ عام الفاظ میں یہ ایک انتباہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مساوات انتظار نہیں کر سکتی۔ خواتین کی مساوی اور بامعنی شرکت کا تعلق محض خواتین کی آواز سنے جانے کے حقوق سے نہیں بلکہ اس کا تعلق آج ہماری دنیا کو درپیش اہم ترین بحرانوں پر قابو پانے کے لئے ہمارے معاشروں کی اہلیت سے بھی ہے۔