انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ہر دس میں سے ایک بچہ پڑھنے کی بجائے کام کرنے پر مجبور

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک دس سالہ لڑکا کچرے کے ڈھیر سے کارآمد اشیاء ڈھونڈ رہا ہے۔
© UNICEF/Ahsan Khan
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک دس سالہ لڑکا کچرے کے ڈھیر سے کارآمد اشیاء ڈھونڈ رہا ہے۔

ہر دس میں سے ایک بچہ پڑھنے کی بجائے کام کرنے پر مجبور

معاشی ترقی

دنیا بھر میں تقریباً 160 ملین بچے سکول جانے کے بجائے روزی کمانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ بچوں کی مجموعی تعداد کا 10 فیصد ہے۔

سوموار کو بچہ مزدوری کے خلاف عالمی دن پر بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے اس صورتحال کا خاتمہ کرنے کی فوری ضرورت کی یاد دہانی کے طور پر یہ اعدادوشمار پیش کئے ہیں۔

Tweet URL

آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگبو نے کہا ہے کہ 20 برس میں پہلی مرتبہ بچہ مزدوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو عموماً اس وجہ سے کام کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑتا کہ ان کے والدین برے ہوتے ہیں یا وہ ان کی پروا نہیں کرتے۔ اس کے بجائے یہ صورتحال سماجی انصاف کے فقدان سے جنم لیتی ہے۔

مسئلے کا حل: اچھا کام، سماجی تحفظ

ہونگبو نے نے ٹویٹر پر واضح کیا ہے کہ بچہ مزدوری کے خاتمے کا موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ بالغوں کو اچھاکام ملے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کو اچھی طرح پال سکیں اور ان کے لئے سماجی تحفظ کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔

انہوں ںے یہ بات بھی واضح کی کہ بچہ مزدوری کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے کے لئے جبری مشقت کے خاتمے، کام کے لئے محفوظ اور صحت مند ماحول کی فراہمی، کارکنوں کو منظم ہونے اور اپنی آواز موثر بنانے کے مواقع مہیا کرنے اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بچہ مزدوری کا مسئلہ عام طور پر انتہائی پسماندہ سماجی گروہوں کو متاثر کرتا ہے۔

ذیلی۔صحارا افریقہ میں تشویشناک صورتحال

آئی ایل او اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی مشترکہ تحقیق کے مطابق بچہ مزدوری پر مجبور بچوں کی نصف تعداد (تقریباً 86.6 ملین) کا تعلق ذیلی۔صحارا افریقہ سے ہے۔

خطے میں تقریباً 24 فیصد بچے یا ہر چار میں سے تقریباً ایک بچہ محنت مزدوری کرتا ہے۔

زرعی شعبہ: بچہ مزدوری کا مرکز

براعظم افریقہ میں اور درحقیقت دنیا بھر میں مزدوری کرنے والے بیشتر بچے زرعی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مزدوری کرنے والے بچوں کی 70 فیصد تعداد زرعی شعبے میں ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایف اے او نے واضح کیا ہے کہ کھیتی باڑی، ماہی گیری اور جنگلات کے شعبے سے منسلک چھوٹے دیہی گھرانوں میں بچہ مزدوری کی شرح شہری علاقوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ بچے عام طور پر فصلیں پیدا کرنے، مویشی چرانے یا مچھلیاں پکڑنے میں اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں اور یہ کام زیادہ تر گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔

اگرچہ ایسا تمام کام بچہ مزدوری نہیں کہلاتا لیکن بہت سے بچوں کے لئے اور خاص طور پر زرعی شعبے میں ان کا کام غیرمحفوظ ہوتا ہے جس میں ان کی بہبود مدنظر نہیں رکھی جاتی۔ اس طرح یہ کام مشقت کی ذیل میں آ جاتا ہے جس سے ان کی صحت یا تعلیمی مواقع کو نقصان ہو سکتا ہے۔

کانگو میں بچے جنگل سے لکڑیوں کے ڈھیر اٹھا کر لا رہے ہیں۔
© UNICEF/Roger LeMoyne
کانگو میں بچے جنگل سے لکڑیوں کے ڈھیر اٹھا کر لا رہے ہیں۔

بچپن کا تحفظ

ایف اے او نے کھیت سے لے کر عالمی سطح تک اس مسئلے پر قابو پانے کی ضرورت واضح کی ہے تاکہ بچوں کے بچپن کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ادارہ کوکا، کپاس اور کافی جیسے اہم شعبوں میں بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

ایف اے او نے آئی ایل او اور یورپی یونین کے تعاون سے ایک مںصوبے کے تحت برکینا فاسو، مالی اور پاکستان میں 10,000 سے زیادہ خواتین، مردوں، نوجوانوں اور بچوں تک رسائی حاصل کی ہے جس کا مقصد لوگوں کے روزگار کو بہتر کرنے، خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور مسئلے کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے کپاس اور اس سے اشیا کی تیاری کے عمل میں بچہ مزدوری پر قابو پانا ہے۔

ایف اے او نے زرعی شعبے میں بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کا فریم ورک بھی تیار کیا ہے جس کا مقصد پالیسی سازوں کو رہنمائی مہیا کرنا ہے اور اس کے ذریعے یوگنڈا اور کابو ویڈ جیسے ممالک میں بچہ مزدوری کی روک تھام کی پالیسیاں وضع کرنے میں مدد ملی ہے۔