انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ہم جنسیت کا جرم ہونا معاملاتِ صحت کے لیے نقصان دہ: یو این ایڈز

جن ممالک میں ہم جنسیت قابل تعزیر جرم ہے وہاں ہم جنس پرست مردوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی شرح ایسے ممالک سے پانچ گنا زیادہ ہے جہاں ایسے تعلقات رکھنا جرم نہیں ہے۔
© UNAIDS
جن ممالک میں ہم جنسیت قابل تعزیر جرم ہے وہاں ہم جنس پرست مردوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی شرح ایسے ممالک سے پانچ گنا زیادہ ہے جہاں ایسے تعلقات رکھنا جرم نہیں ہے۔

ہم جنسیت کا جرم ہونا معاملاتِ صحت کے لیے نقصان دہ: یو این ایڈز

صحت

دنیا میں 67 ممالک اب بھی ایسے ہیں جہاں میں ہم جنس تعلقات جرم ہیں اور ان میں 10 ممالک میں ہم جنس جسمانی تعلق قائم کرنے کی سزا موت ہے۔ 20 ممالک ایسے ہیں جہاں صنفی تنوع کو جرم سمجھا جاتا ہے۔

ایسے قوانین سے ہر ایک کی صحت عامہ کو نقصان ہوتا ہے اور جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ صحت عامہ اور انسانی حقوق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

Tweet URL

سترہ مئی کے ہم جنسیت سے نفرت کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے 'یو این ایڈز' میں حکمت عملی، وکالت اور معلومات کے شعبے کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹائن سٹیگلنگ کا کہنا ہے کہ ''ہم جنس پرستی اور صںفی تنوع کو جرائم کی ذیل سے نکالنے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے سے زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی اور یہ تمام لوگوں کی برابری، وقار اور صحت کے لئے ایک اہم قدم ہو گا۔''

سماجی و ثقافتی تنوع

تمام ثقافتوں میں جنسی رحجان، صنفی شناخت اور اظہار متنوع ہوتے ہیں۔ ایل جی بی ٹی کیو آئی + لوگ زمانہ قدیم سے ہی ہر ملک کے ہر معاشرے کا حصہ ہیں تاہم اب بھی یہ لوگ پسماندہ ہیں اور انہیں قانونی، ثقافتی، سماجی یا تمام اعتبار سے معاشرے سے خارج رکھا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے اور ایسے لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے باعث ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد تحفظ زندگی میں مددگار خدمات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

ایسے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں جن میں طبی خدمات مہیا کرنے والوں کو ہم جنس پرستی کے کٹر مخالفین یا پولیس کی جانب سے ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کو تحفظ زندگی کی خدمات مہیا کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

جرم و سزا اور صحت

یو این ایڈز نے بتایا ہے کہ جن ممالک میں ہم جنس پرست تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے وہاں ہم جنس پرست مردوں اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے والے مردوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی شرح ایسے ممالک سے پانچ گنا زیادہ ہے جہاں ہم جنس تعلقات رکھنا جرم نہیں ہے۔

جن ممالک میں حال ہی میں ایسے تعلقات رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی گئی ہے وہاں یہ شرح 12 گنا زیادہ ہے۔

ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات میں ایسے قوانین کے نقصان دہ اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکن ممالک نے ایچ آئی وی پر 2021 کے سیاسی اعلامیے میں ایسے قوانین کو ختم کرنے کا عزم کیا جو ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات کو کمزور کر دیتے ہیں اور ان کے باعث آبادی کا بڑا حصہ زندگی میں پیچھے رہ جاتا ہے۔

ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات میں ہم جنس پرستی کو جرم کی ذیل سے نکالنا ایک اہم اقدام ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ممالک نے عہد کیا کہ 2025 تک قانون اور پالیسی کے ضمن میں ایسا تعزیری ماحول 10 فیصد سے بھی کم ممالک میں ہو جس سے ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات متاثر ہوتے ہیں۔

خوش آئند پیش رفت

اس حوالے سے مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے۔ گزشتہ برس اینٹی گوا اینڈ بارباڈوا، سینٹ کٹس اینڈ نیویس، سنگاپور، بارباڈوز اور جازئر کُک نے ایسے قدیم نوآبادیاتی قوانین منسوخ کر دیے تھے جن کے تحت ہم جنس پرستی کو مجرمانہ عمل سمجھا جاتا تھا۔ کویت کی عدالت نے ایک قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے تحت "جنس مخالف جیسا حلیہ بنانا" جرم تھا۔