انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اختیارات میں توازن ہی صنفی مساوات کا راستہ ہے: گوتیرش

پاکستان سے تعلق رکھنے والا امن دستہ کانگو میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے۔
MONUSCO/Kevin N. Jordan
پاکستان سے تعلق رکھنے والا امن دستہ کانگو میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے۔

اختیارات میں توازن ہی صنفی مساوات کا راستہ ہے: گوتیرش

خواتین

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے مطابق صںفی مساوات اب بھی بنیادی طور پر اختیار کا سوال ہے اور مردانہ بالادستی کی روایت کو تبدیل کرنے اور صنفی توازن لانے کے لیے ہمیں قیادت، فیصلہ سازی اور ہر سطح پر صنفی مساوات کی ضرورت ہے۔

صنفی مساوات کی حکمت عملی متعارف کرانے کو پانچ سال مکمل ہونے پر اس حوالے سے 'یو این گروپ آف فرینڈز'کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ''اقوام متحدہ کے لیے اپنی بنیادی اقدار کی نمائندگی کرنا ضروری ہے۔

Tweet URL

یہ وہ اقدار ہیں جن کا تذکرہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے اور اس معاملے میں ادارے کو اپنی مثال کے ذریعے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنے عملے میں صنفی مساوات پیدا کرنا اپنے کام میں صنفی برابری کے حصول کا واحد راستہ ہے۔''

ٹھوس پیش رفت

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ''ہم طویل سفر کر کے آئے ہیں'' اور ہم نے اس ضمن میں بعض غیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔ دو سال پہلے ادارے کی اعلیٰ قیادت میں صنفی مساوات کا قیام اس کی نمایاں مثال ہے اور یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔

اب قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی کارروائیوں کے سربراہوں اور نائب سربراہوں کے عہدوں پر بھی صںفی مساوات دیکھی جا سکتی ہے جبکہ پانچ سال پہلے ان کرداروں میں خواتین کا تناسب محض 25 فیصد تھا۔

2018 میں 130 علاقائی رابطہ کاروں میں صنفی مساوات لائی گئی اور اب اقوام متحدہ کے اداروں کے مراکز میں خواتین کی نمائندگی مردوں کے برابر ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ایسے اداروں کی تعداد پانچ سے بڑھ کر 26 ہو گئی ہے جہاں کم از کم 50 فیصد عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔

تفاوت موجود

ان کا کہنا تھا کہ ''ایسی کامیابیوں کے باوجود فرق اب بھی باقی ہے۔''

انہوں ںے کہا کہ مرکزی دفاتر سے دور قیام امن کے کام اور امدادی کارروائیوں میں اس حوالے سے ''پیش رفت سست رہی ہے اور بعض اوقات پسِ رفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہمیں اپنے کام کے علاقوں میں قائم اپنے مرکزی دفاتر میں پہلی مرتبہ بھرتی کیے جانے والے عملے میں خواتین کی تعداد میں کمی آنے پر خاص طور پر فکرمند ہونا چاہیے۔ مستقبل میں مساوات لانے کے امکانات پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔''

2025 تک ہر جگہ اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کے عملے میں ''پیشہ ور'' درجوں میں کام کرنے والے ملازمین میں صنفی مساوات کا قیام لازمی ہے اور اس ہدف کے حصول کے لیے مقررہ وقت میں تین ہی سال باقی ہیں تاہم سیکرٹریٹ کی سطح سے ہٹ کر اقوام متحدہ کے کام کی تمام جگہوں پر یہ ہدف 2028 تک ہی حاصل ہو پائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حوالے سے مجموعی حکمت عملی کو اب عملی میدان میں پیش رفت برقرار رکھنے پر مرکوز ہونا چاہیے۔

'ٹیلنٹ پائپ لائن'

ہم 'سینئر ویمن ٹیلنٹ پائپ لائن' کے لیے تعاون جاری رکھیں گے جس کے نتیجے میں 2014 سے اب تک اعلیٰ عہدوں پر تقریباً 60 خواتین کی تقرری عمل میں آئی اور ایسی بیشتر تعیناتیاں سیکرٹریٹ سے ہٹ کر کام کے دیگر علاقوں میں ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے عمومی خدمات انجام دینے والے عملے اور قومی افسروں کو کام کے پیشہ وارانہ درجوں میں منتقل کرنے میں بھی سہولت ملی۔

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ ''اس شعبے میں مجھے جنرل اسمبلی کی منظوری درکار ہے اور میں 'گروپ آف فریںڈز' سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں متحرک کردار ادا کریں گے کیونکہ خواتین کو عملی میدان میں پیشہ وارانہ عہدوں پر لانے میں اس کی کلیدی اہمیت ہے۔''

انہوں ںے کہا کہ کام کی جگہ کے ماحول کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اگر دقیانوسی سوچ اور کام کی جگہ پر صنفی تعصب پر قابو نہ پایا گیا اور جنسی امتیاز اور نسل پرستی کو چھوٹ دی گئی تو ''ہم لوگوں کی خدمت کرنے میں ناکام رہیں گے۔''

انہوں نے کہا کہ وہ جنسی ہراسانی سمیت ہر طرح کے امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔

انڈیا کے علاقے راجھستان میں ایک خاتون منتخب عوامی نمائندہ دوسری خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے کا کہہ رہی ہیں۔
UN Women/Ashutosh Negi
انڈیا کے علاقے راجھستان میں ایک خاتون منتخب عوامی نمائندہ دوسری خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے کا کہہ رہی ہیں۔

بہتری کی گنجائش

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ تین جگہوں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں صنفی اور جغرافیائی تنوع پر تکمیلی اہداف کے طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ''افریقن ریجن میں سیکرٹریٹ سطح پر محض 36 فیصد پیشہ ور عملہ خواتین پر مشتمل ہے اور اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہیے۔''

دوسری بات یہ کہ ہمیں دفاتر سے ہٹ کر عملی میدان میں خواتین کو بھرتی کرنے کی کوششوں کو مضبوط کرنا ہو گا اور تیسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو خواتین کے لیے مزید پرکشش آجر بننے کے لیے اپنی پالیسیوں اور ذرائع کو بڑھانا چاہیے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''ہم خاص طور پر دنیا کے جنوبی حصے میں رکن ممالک اور سول سوسائٹی کے قریبی تعاون سے یہ کام جاری رکھیں گے تاکہ یقینی بنا سکیں کہ ہم اپنے ادارے میں ہر سطح پر تمام ممالک اور معاشروں کی عکاسی کرتے ہیں۔''

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ''ہم جن لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں ان کی توقعات پر پورا اترنے اور سبھی کے لیے مزید پائیدار، منصفانہ، مشمولہ، پرامن اور خوشحال دنیا ممکن بنانے کے لیے صنفی مساوات ضروری ہے۔''