انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار: فوجی حکمران پابندیوں کے باوجود اسلحہ خریدنے میں کامیاب

میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار ٹام اینڈریوز صحافیوں کا بریفنگ دیتے ہوئے۔
UN Photo/Loey Felipe
میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار ٹام اینڈریوز صحافیوں کا بریفنگ دیتے ہوئے۔

میانمار: فوجی حکمران پابندیوں کے باوجود اسلحہ خریدنے میں کامیاب

انسانی حقوق

میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین کے مطابق ملک کے فوجی حکمرانوں نے 2021 میں حکومت کے خلاف جرنیلوں کی بغاوت کے بعد کم از کم ایک بلین ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار بنانے کے لئے خام مال خریدا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر 'او ایچ سی ایچ آر' کی جانب سے جاری کردہ نیوز ریلیز کے مطابق اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھلم کھلا سازباز، موجودہ پابندیوں کے غیرموثر نفاذ اور ان سے باآسانی گریز جیسے اقدامات کے ذریعے "اقوام متحدہ کے بعض رکن ممالک اس تجارت میں مدد درہے ہیں۔"

Tweet URL

جدید اسلحے تک رسائی

میانمار کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار ٹام اینڈریوز نے کہا ہے کہ "میانمار کی فوج کی جانب سے ملکی عوام کے خلاف ظالمانہ جرائم کی واضح شہادت ہونے کے باوجود جرنیلوں کو ہتھیاروں کے جدید نظام، لڑاکا طیاروں کے فاضل پرزوں اور اندرون ملک ہتھیاروں کی تیاری کے لئے خام مال اور آلات تک رسائی حاصل ہے۔"

یہ ہتھیار مہیا کرنے والے عناصر جعلی کمپنیوں کے ذریعے اور پابندیوں کے غیرموثر نفاذ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی کمپنیاں بنا کر میانمار پر عائد پابندیوں سے بچ نکلتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہر کا کہنا ہے کہ "اچھی خبر یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہتھیار کون مہیا کر رہا ہے اور ایسے عناصر کس دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو چاہئیے کہ وہ آگے بڑھیں اور ان ہتھیاروں کی ترسیل کو روکیں۔"

حکومتوں سے درخواست

ٹام اینڈریوز نے میانمار کی فوج کو ہتھیاروں کی فروخت یا منتقلی پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اسلحہ کے تاجروں اور غیرملکی کرنسی کے ذرائع پر پابندیوں کو مربوط صورت دیتے ہوئے میانمار پر موجودہ پابندیوں کا اطلاق یقینی بنائیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ ماہر کی رپورٹ بعنوان "موت کی اربوں ڈالر کی تجارت: میانمار میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے پیچھے اسلحے کے عالمی نیٹ ورکس کا کردار" فوجی بغاوت کے بعد میانمار کی فوج کو منتقل کئے جانے والے ہتھیاروں کے بارے میں اب تک کا مفصل ترین جائزہ ہے۔

ٹام اینڈریوز کا کہنا ہے کہ "روس اور چین میانمار کی فوج کو ہتھیاروں کے جدید نظام مہیا کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں جنہوں نے بغاوت کے بعد اسے بالترتیب 400 اور 260 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ ایسی بیشتر تجارت ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اداروں کے ذریعے ہوئی ہے۔

رپورٹ میں میانمار کی فوجی حکومت کو جن دوسرے ممالک سے اسلحہ فراہم کیا گیا ہے ان میں انڈیا، تھائی لینڈ، اور سنگاپور شامل ہیں۔

سنگاپور کا کردار

تاہم ان کا کہنا ہے کہ "میانمار کی فوج کے زیراہتمام مہلک ہتھیار تیار کرنے والے کارخانوں کو فعال رکھنے میں سنگاپور سے کام کرنے والے اسلحہ کے تاجروں کا اہم کردار ہے۔" (ان کارخانوں کو کاپاسا بھی کہا جاتا ہے)

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فروری 2021 سے دسمبر 2022 کے درمیان سنگاپور کے درجنوں اداروں کی جانب سے میانمار کی فوج کو 254 ملین ڈالر سے زیادہ مالیتی اسلحہ بھیجا گیا ہے۔ اسلحہ کے تاجروں نے اس مقصد کے لئے سنگاپور کے بینکوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔

ٹام اینڈریوز کے مطابق، سنگاپور کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ "میانمار کو اسلحے کی منتقلی کی ممانعت" کی پالیسی پر کاربند ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ "دہرے مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی ایسی چیزوں کی منتقلی کی اجازت نہیں دی جائے گی جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ انہیں میانمار میں ممکنہ عسکری سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جائے گا۔"

خصوصی اطلاع کار نے کہا کہ "میں سنگاپور کے رہنماؤں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس رپورٹ میں دی گئی اطلاعات کو دیکھیں اور اپنی پالیسیوں کا ہرممکن حد تک نفاذ ممکن بنائیں۔"

اس رپورٹ میں جرنیلوں کی بغاوت کے بعد تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے اداروں کی جانب سے میانمار کی فوج کو 28 ملین ڈالر کے اسلحے کی منتقلی کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، انڈیا سے تعلق رکھنے والے اداروں نے فروری 2021 کے بعد میانمار کی فوج کو 51 ملین ڈالر مالیت کا اسلحہ اور متعلقہ سازوسامان مہیا کیا ہے۔