انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انسانی حقوق کی بگڑی صورتحال میں میانمار کا بحران بڑھ رہا ہے، ترک کا انتباہ

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
© Unsplash/Saw Wunna
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

انسانی حقوق کی بگڑی صورتحال میں میانمار کا بحران بڑھ رہا ہے، ترک کا انتباہ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ میانمار میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ظالمانہ فوجی بغاوت سے قریباً دو سال بعد ملک مزید بحران کا شکار ہو گیا ہے اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ ''میانمار میں قریباً ہر قابل عمل اندازے سے اور انسانی حقوق کے ہر شعبے میں بڑی حد تک تنزلی ہوئی ہے۔ ان میں شہری و سیاسی حقوق کی طرح معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق بھی شامل ہیں۔''

Tweet URL

'او سی ایچ سی آر' کے سربراہ کے مطابق ''فوج پر لڑائیوں کے دوران شہریوں کو تحفظ دینے کی واضح قانونی ذمہ داریوں کے باوجود بین الاقوامی قانون سے متعلقہ قواعد کو متواتر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔''

اندھا دھند حملے

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ ''عام شہری حملوں کا اصل ہدف ہیں جنہیں توپ خانے کی نپی تلی اور اندھا دھند بمباری اور فضائی حملوں، ماورائے عدالت سزائے موت اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے گاؤں کے گاؤں جلائے جا رہے ہیں۔''

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے میانمار میں آزادی اور وقار کی جدوجہد کرتے ہوئے جان گنوانے والوں اور مسلسل تکالیف اور مصائب جھیلنے والے ان کے خاندانوں اور عزیزوں کی جرات کو سلام پیش کیا۔''

'او ایچ سی ایچ آر' کا کہنا ہے کہ مصدقہ ذرائع کے مطابق فوج اور اس کے ساتھ کام کرنے والے مسلح گروہوں کے ہاتھوں کم از کم 2,890 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں سے 767 افراد وہ ہیں جنہیں ابتداً حراست میں رکھا گیا تھا۔

یہ فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی اصل سے تقریباً یقینی طور پر بہت کم تعداد ہے۔

1.2 ملین لوگ نقل مکانی پر مجبور

'او ایچ سی ایچ آر' کا کہنا ہے کہ میانمار کے 1.2 ملین شہری اندرون ملک بے گھر ہیں اور 70,000 سے زیادہ نے ملک چھوڑ دیا ہے جبکہ دس لاکھ سے زیادہ آبادی پہلے ہی ملک سے جا چکی ہے جن میں ملک کی روہنگیا مسلمان آبادی بھی شامل ہے جس نے دہائیوں تک متواتر مظالم اور حملوں کا سامنا کیا ہے۔

انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ مصدقہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دو برس میں گھروں، شفا خانوں، سکولوں اور عبادت گاہوں سمیت 34,000 سے زیادہ شہری تنصیبات نذر آتش کی جا چکی ہیں۔

میانمار کی معیشت بیٹھ چکی ہے اور اب ملک کی تقریباً نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' نے واضح کیا ہے کہ یکم فروری 2021 سے فوج نے ملک کی تمام منتخب جمہوری قیادت کو قید میں ڈال رکھا ہے اور تب سے اب تک مزید 16,000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے بیشتر کو فوجی عدالتوں میں جھوٹے الزامات کا سامنا ہے جو کہ جائز قانونی کارروائی اور منصفانہ مقدمے کے حقوق کی کھلی پامالی ہے اور ان لوگوں کے خلاف یہ کارروائی فوجی حکومت کے اقدامات کو قبول کرنے سے انکار کی پاداش میں کی جا رہی ہے۔

مسئلے کا حل

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ ''اس تباہ کن صورتحال سے نکلنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں انسانی مصائب اور حقوق کی پامالی میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ذریعے میانمار کی فوجی قیادت سے رابطے میں رہنے والے علاقائی رہنماؤں نے میانمار کے مسئلے پر پانچ نکاتی اتفاق رائے قائم کیا تھا جس کی میانمار کے جرنیلوں نے تحقیر کی ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''اس حوالے سے ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ اور متاثرین تک انسانی امداد کی رسائی جیسی دو اہم شرائط پوری نہیں کی گئیں۔ درحقیقت حالات اس سے برعکس ہیں۔ تشدد بے قابو ہو چکا ہے اور امدادی اداروں کی متاثرین تک رسائی میں شدید رکاوٹیں حائل ہیں۔''

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک۔
Volker Türk
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک۔

آنگ سان سو کی کو رہا کیا جائے

ہائی کمشنر نے دیگر سیاسی اقدامات کے بارے میں بھی بتایا جو اس بحران کے حل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطالبے کی مطابقت سے سٹیٹ کونسلر آںگ سان سو کی اور صدر یو وِن میئنٹ سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے تمام فریقین کے ساتھ مشمولہ بات چیت ضروری ہے جس میں آسیان کے سربراہ اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو بھی شامل کیا جائے۔ او ایچ سی ایچ آر کو ملک میں صورتحال کا آزادانہ اور غیرجانبدارانہ جائزہ لینے کے لیے بامعنی رسائی دی جانی چاہیے۔

وولکر تُرک نے کہا کہ ''انسانی حقوق کے احترام کی بحالی اس بحران کو حل کرنے اور ان حالات کا خاتمہ کرنے کی کنجی ہے جن میں میانمار کے جرنیل وحشیانہ طاقت کے ذریعے دہائیوں پرانے نظام کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ کسی کو جوابدہ نہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''شہریوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر حملے کرنے والوں اور انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث عناصر سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔''

سویلین حکمرانی کی جانب مراجعت

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ ''فوج کو سویلین حکومت کی حقیقی اور موثر نگرانی میں لایا جانا چاہیے۔ اس مقصد کا حصول مشکل ہو گا لیکن کسی بھی طرح کی جمہوری حکمرانی کی بحالی اور ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل نے اس حوالے سے گزشتہ مہینے ہی ایک نئی قرارداد کی منظوری دی جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا میانمار میں ہلاکتوں کو روکنے، لوگوں کو تحفظ دینے اور ان کے عالمگیر انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے کے لیے اکٹھے ہو کر مشترکہ اقدامات کرے۔''