انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار میں سینکڑوں افراد کو ملی رہائی، لیکن ہزاروں اب بھی قید

واشنگٹن ڈی سی میں لوگ میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
Unsplash/Gayatri Malhotra
واشنگٹن ڈی سی میں لوگ میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

میانمار میں سینکڑوں افراد کو ملی رہائی، لیکن ہزاروں اب بھی قید

انسانی حقوق

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ میانمار میں اس ہفتے ہزاروں سیاسی قیدیوں کو معافی دی گئی تاہم مزید ہزاروں لوگ اب بھی قید میں ہیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کے ترجمان جیریمی لارنس نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ''میانمار میں سیاسی قیدیوں کی رہائی ناجائز قید بھگتنے والوں کے علاوہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی سُکھ کی گھڑی ہے۔

Tweet URL

البتہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اس موقع پر ان مزید ہزاروں لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جو فوجی حکومت کی مخالفت کی پاداش میں قید کاٹ رہے ہیں۔''

جیلوں میں تشدد

تقریباً دو سال پہلے اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی ٹولے نے ملک کی آزادی کی 75ویں سالگرہ پر اس ہفتے تقریباً 7,000 قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا مخالفین کے خلاف اس کی ظالمانہ کارراوئی کے دوران جیل بھیجے جانے والوں کو بھی رہا کیا جائے گا یا نہیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کے ترجمان نے مصدقہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی حکومت نے تقریباً 300 سیاسی کارکنوں کو قید کر رکھا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ''اگرچہ ملک کے یوم آزادی پر قیدیوں کو معافی دیے جانے کی خبریں سامنے آئی ہیں لیکن ہمیں لوگوں کو فوجی حکومت کی مخالفت کی پاداش میں بدستور گرفتار اور قید کیے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جن میں بہت سے لوگوں کو تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔

مزید گرفتاریاں

یکم فروری 2021 کو فوجی بغاوت کے بعد قریباً 17,000 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور 13,000 سے زیادہ بدستور قید میں ہیں۔

اس صورتحال پر نظر رکھنے والے مقامی گروپ 'سیاسی قیدیوں کے لیے امدادی تنظیم' کا بھی یہ ماننا ہے کہ 300 سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے جن میں 223 کی نشاندہی ہو گئی ہے جبکہ یہ گروپ رہا ہونے والے دیگر افراد کی شناخت کے لیے کام کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے عہدیدار نے معافی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس دن ان قیدیوں کو رہا کیا گیا اسی روز مزید 22 افراد کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ''ایسے واقعات کا مقصد فوجی ٹولے کے مخالفین کو خاموش کرنا ہی نہیں بلکہ خوف پیدا کرنا بھی ہے۔''

آزادی کی پکار

اس سال انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی 75ویں سالگرہ پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے غیرقانونی حراستوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کو کہا ہے۔

انہوں نے انسانی حقوق کو ''یکجا کرنے والی قوت'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں اپنی بنیاد، انسانی وقار اور اس چیز کی جانب واپس پلٹنا چاہیے جو ہم سب کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے اور ایک فرد کی تکلیف بالاآخر سبھی کو مجروح کرتی ہے۔''

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے دنیا بھر کی تمام حکومتوں اور لوگوں کو قید میں رکھنے والے حکام سے کہا کہ وہ اپنے حقوق سے کام لینے کی پاداش میں قید کاٹنے والے تمام لوگوں پر رحم کریں، انہیں معافی دیں یا انہیں رہا کر دیں۔

جیریمی لارنس نے واضح کیا کہ ''میانمار کے بحران سے نکلنے کا راستہ لوگوں کو قید میں ڈالنا نہیں بلکہ انہیں سیاسی زندگی میں آزادانہ، مکمل اور موثر طور پر حصہ لینے کی اجازت دینا ہے۔''

آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ

'او ایچ سی ایچ آر' نے میانمار کی جمہوری طور پر منتخب سابق رہنما آنگ سان سوکی کو اس ہفتے مزید سزا دیے جانے پر کہا ہے کہ انہیں فوری رہا کیا جائے اور لوگوں کی غیرقانونی قید کو ختم کیا جائے۔

منگل کو اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا تھا کہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بھی آنگ سان سو کی کے خلاف تازہ ترین فیصلوں اور انہیں سزا دیے جانے پر ''گہری تشویش'' ظاہر کی اور ان سمیت صدر وین میئنٹ اور میانمار میں غیرقانونی قید کا سامنا کرنے والے تمام لوگوں کی فوری رہائی کے مطالبات کا اعادہ کیا۔

جیریمی لارنس نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 'او ایچ سی ایچ آر' حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ہائی کمشنر میانمار کے بارے میں جلد ایک نئی رپورٹ جاری کریں گے۔