انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سوڈان: اقوام متحدہ کی فریقین سے جنگ بندی کی پھر اپیل

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش (بائیں جانب) سوڈان کے بحران پر ہونے والے ورچوئل اجلاس میں شریک ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش (بائیں جانب) سوڈان کے بحران پر ہونے والے ورچوئل اجلاس میں شریک ہیں۔

سوڈان: اقوام متحدہ کی فریقین سے جنگ بندی کی پھر اپیل

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ سوڈان میں عسکری طاقت سے حصول اقتدار کی لڑائی کو فوری ختم کرنے کی اپیل کر رہا ہے. سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش، افریقن یونین، عرب لیگ، مشرقی افریقی بلاک اور دیگر تنظیموں نے اس بحران پر جمعرات کو ورچوئل اجلاس کیا ہے۔

یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا جب متحارب فورسز کے مابین 24 گھنٹے کی جنگ بندی کی اطلاعات آئی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ جنگ بندی بدھ کی شام کو شروع ہوئی اور دارالحکومت خرطوم میں بظاہر برقرار رہی۔

Tweet URL

سوڈان کی مسلح افواج اور نیم فوجی گروہ 'ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے مابین جھڑپیں ہفتے کو شروع ہوئیں۔ دونوں فریقین میں سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بیشتر لڑائی دارالحکومت خرطوم میں ہوتی رہی ہے جہاں شہری کئی روز سے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔

طبی خدمات کو خطرہ  

اگرچہ شہر چھوڑنا تیزی سے مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کے پاس خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی قلت ہونے لگی ہے اور بہت سے شہریوں کو فوری طبی نگہداشت درکار ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤںٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ''سوڈان کی صورتحال تیزی سے تشویشناک اور دل شکن ہوتی جا رہی ہے۔ اب تک 330 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور قریباً 3,200 زخمی ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل نے تمام جانوں کے ضیاع خصوصاً شہریوں اور طبی مراکز پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ انہوں ںے فورسز کی جانب سے طبی مراکز پر قبضہ کرنے کی اطلاعات پر سنگین تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں ںے واضح کیا ہے کہ طبی سہولیات پر حملے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

انہوں نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کا احترام کریں تاکہ لوگ پناہ، طبی خدمات، خوراک، پانی اور ادویات تک رسائی حاصل کر سکیں۔

بچوں کا تباہ کن نقصان

یونیسف کی ڈائریکٹر جنرل کیتھرائن رسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''سوڈان میں پانچ روز سے جاری شدید لڑائی اور جنگ بندی کی چار ناکام کوششوں نے ملک میں بچوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔ اگر تشدد بند نہ ہوا تو یہ نقصان بڑھتا جائے گا۔''

انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق خرطوم، ڈارفر کی ریاستوں اور شمالی کوردوفان میں جاری لڑائی میں کم از کم نو بچے ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، تاہم سکیورٹی کی خراب صورتحال کے باعث معلومات جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔

خرطوم کے علاقے التیف میں گولہ باری کے بعد دھوئے کے اٹھتے بادل۔
Open Source
خرطوم کے علاقے التیف میں گولہ باری کے بعد دھوئے کے اٹھتے بادل۔

بھوک میں اضافے کا خدشہ

دریں اثنا، عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ تشدد سے مزید لاکھوں لوگ غربت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی نے اس سال سوڈان میں تقریباً 7.6 ملین لوگوں کو مدد دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی لیکن اسے وہاں اپنی کارروائیاں عارضی طور پر روکنا پڑی ہیں کیونکہ ملک میں جاری لڑائی کے باعث امدادی ٹیموں کے لیے لوگوں کو ہنگامی غذائی مدد، سکول کے بچوں کے لیے کھانے کی فراہمی جیسی سرگرمیاں انجام دینا اور غذائی قلت کی روک تھام اور اسے نمٹںے کے اقدامات کرنا ممکن نہیں رہا۔

اقوام متحدہ کے ادارے کو بھی اس لڑائی میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے عملے کے تین ارکان ہفتے کو فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک اور دو شدید زخمی ہو گئے نتھے۔ ڈبلیو ایف پی نے بتایا ہے کہ اس کا عملہ، دفاتر، گاڑیاں، آلات اور خوراک کے ذخائر بھی براہ راست فائرنگ کی زد میں آئے ہیں۔