انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سوڈان میں فریقین کو مذاکرات کی طرف واپس آنا چاہیے: وولکر ترک

انسانی حقوق کمشنر وولکر ترک نے گزشتہ سال نومبر میں سوڈان کی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے خرطوم میں ملاقاتیں کی تھیں۔
Volker Türk
انسانی حقوق کمشنر وولکر ترک نے گزشتہ سال نومبر میں سوڈان کی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے خرطوم میں ملاقاتیں کی تھیں۔

سوڈان میں فریقین کو مذاکرات کی طرف واپس آنا چاہیے: وولکر ترک

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے سوڈان میں لڑائی فوری بند کرنے اور اقتدار کے لیے برسرپیکار متحارب عسکری فریقین سے مذاکرات کی جانب واپس آنے کی درخواست کی ہے جبکہ ملک میں 24 گھنٹے کی مجوزہ جنگ بندی کی اطلاعات ہیں۔

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ ''سوڈان نے پہلے ہی بہت سی تکالیف اور مصائب جھیلے ہیں۔ یہ لڑائی حصول اقتدار کی کشمکش اور ذاتی مفادات کا نتیجہ ہے جس سے عوام کی جمہوری امنگوں کے خاتمے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کیا اس لڑائی کے ذمہ دار یہ بات نہیں سمجھتے کہ عام شہری اب صرف پُرامن زندگی چاہتے ہیں؟''

Tweet URL

امدادی کارروائیاں معطل

سوڈان کی فوج اور اس کا مخالف عسکری گروہ 'ریپڈ سپورٹ فورسز' (آر ایس ایف) چار روز سے شدید لڑائی میں مصروف ہیں۔

یہ شورش ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب سوڈان تین دہائیوں کے فوجی اقتدار کے بعد بظاہر جمہوری تبدیلی کی جانب بڑھ رہا تھا۔

عالمی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ فریقین 24 گھنٹے کی جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں جو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے شروع ہو گی۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سرکاری حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس لڑائی میں اب تک 270 افراد ہلاک اور 2,700 زخمی ہو چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے عملے کے تین ارکان بھی شامل ہیں جو شمالی ڈارفر میں کام کر رہے تھے۔ ان ہلاکتوں کے بعد ادارے نے ملک بھر میں اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ سوڈان میں کام کرنے والے اقوم متحدہ کے اداروں نے بھی اپنی بیشتر کارروائیاں روک دی ہیں۔

شہری گھروں میں محصور

بیشتر لڑائی دارالحکومت خرطوم میں ہو رہی ہے جہاں ایئرپورٹ پر فائرنگ کے تبادلے میں اقوام متحدہ کی امدادی فضائی خدمات (یو این ایچ اے ایس) کے طیارے کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں جس سے دور دراز علاقوں تک امداد پہنچانے کا کام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے جہاں لوگوں کو مدد کی اشد ضرورت ہے۔

اس سال کے آغاز پر سوڈان کی تقریباً ایک تہائی آبادی یا تقریباً 16 ملین افراد کو امداد کی ضرورت تھی۔

وولکر ترک نے کہا کہ ''لڑائی میں جان بچانے کے لیے ہزاروں شہری اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جنہیں نہ تو بجلی میسر ہے اور نہ ہی وہ باہر جا سکتے ہیں اور انہیں خوراک، پینے کا پانی اور ادویات ختم ہونے کی پریشانی لاحق ہے۔''

پس منظر

سوڈان عرصہ دراز سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ اپریل 2019 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد فوج نے ملک پر طویل عرصہ سے حکمرانی کرنے والے عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا تھا۔ سابق صدر نے ملک پر 25 سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی تھی۔

اس کے بعد اکتوبر 2021 میں فوج نے مخلوط حکومت کو ختم کر دیا اور دو افراد تمام اختیارات کے مالک بن گئے جن میں ایک فوجی سربراہ اور دوسرے ان کے نائب تھے جو اس وقت آر ایس ایف کے سربراہ ہیں۔ سویلین حکومت کی بحالی کے طریقہ کار پر ان دونوں میں اختلافات تھے۔

'عقل سے کام لیں'

وولکر ترک نے متحارب فریقین پر زور دیا کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو بین الاقوامی قانون کی مطابقت سے شہریوں اور شہری تنصیبات جیسا کہ سکولوں اور ہسپتالوں کا تحفظ یقینی بنانے کی یاد دہانی کرائیں۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے کہا کہ لڑائی کے دوران جنسی زیادتی کی کوششوں کی اطلاعات ہولناک ہیں۔ انہوں نے ڈبلیو ایف پی کے عملے سمیت شہریوں کی ہلاکتوں اور حقوق کی دیگر پامالیوں کی فوری، مفصل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان واقعات کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ''چند ہی ہفتے پہلے سوڈان بظاہر ایک ایسے معاہدے کے لیے درست راہ پر گامزن تھا جس کے نتیجے میں سویلین اقتدار کی بحالی عمل میں آنا تھی۔ معقولیت غالب آنی چاہیے اور تمام فریقین کشیدگی میں کمی لانے کے اقدامات کریں۔ سوڈان کے عوام کے مشترکہ مفادات کو مقدم رکھا جانا چاہیے۔''