افغانستان: خواتین پر پابندیوں سے معاشی بدحالی بڑھے گی، یو این
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حصول تعلیم اور کام کرنے کی اہلیت پر ظالمانہ پابندیوں نے سماجی معاشی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے جن کے ملکی آبادی پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ رپورٹ ''افغانستان کا سماجی معاشی منظرنامہ 2023'' میں اگست 2021 کو افغانستان میں اس کے موجودہ طالبان حکمرانوں کے برسراقتدار آنے کے نتائج کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے فوری بعد افغانستان کی معیشت بیٹھ گئی اور ملک کے غربت کی جانب ایک دہائی سے جاری سفر کی رفتار تیز ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2021 میں افغانستان کی آبادی تقریباً 40 ملین اور اس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 14.3 ارب ڈالر تھی اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں قریباً 85 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
بین الاقوامی امداد پر انحصار
اگرچہ اس رپورٹ میں بعض حوصلہ افزا حالات (جیسا کہ برآمدات میں اضافہ، داخلی مالی آمدنی میں آٹھ فیصد اضافے کی توقع، کرنسی کی شرح تبادلہ میں استحکام اور مہنگائی میں کمی) کی نشاندہی بھی کی گئی ہے تاہم یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ بڑی حد تک اس کا سبب گزشتہ برس افغانستان کو بڑے پیمانے پر بھیجی جانے والی بین الاقوامی امداد ہے (جو کہ 2022 میں 3.7 بلین ڈالر تھی جس میں سے 3.2 بلین ڈالر اقوام متحدہ نے مہیا کیے)
تاہم یہ صورتحال دیرپا بحالی کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ اس سال اور 2024 میں متوقع طور پر فی کس آمدنی میں کمی آئے گی اور اگر امداد میں 30 فیصد تک کمی ہوئی تو 2024 میں مہنگائی 10 فیصد تک پہنچ جائے گی اور اوسط آمدنی میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی امداد میں کوئی بھی کمی افغانستان کے معاشی امکانات کے لیے بدترین ثابت ہو گی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی شدید غربت دہائیوں تک برقرار رہے گی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی جانب سے 2023 میں افغانستان کے لیے 4.6 بلین ڈالر امداد کی اپیل افغانوں کی کم از کم ضرورت ہے۔
خواتین کے بغیر غربت سے چھٹکارا ناممکن
افغانستان کے لیے یو این ڈی پی کی نائب نمائندہ سورایو بوزوروکووا نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین کے حصول علم اور کام کرنے کی اہلیت پر کڑی پابندی لگانے کا فیصلہ ملک کو درپیش معاشی خدشات کا ایک اہم سبب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نے تجربے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ افرادی قوت میں سے خواتین کا اخراج معاشی ترقی کو کس طرح متاثر کرے گا۔ ہم نے حساب لگایا ہے کہ خواتین کے بغیر ترقی کرنا اور غربت میں کمی لانا ممکن نہیں ہو گا۔ جب ہم افغانستان کے موجودہ حکمرانوں سے بات کرتے ہیں تو انہیں یہی پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
صحت و تعیلم کے شعبوں کو استثنیٰ حاصل
بوزوروکووا نے امید ظاہر کی کہ بالآخر افغانستان میں خواتین کے لیے صورتحال زیادہ جابرانہ نہیں رہے گی اور خاص طور پر ان صوبوں میں حالات بہتر ہو جائیں گے جہاں خواتین امدادی کارکنوں کی معاونت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
انہوں ںے کہا کہ اگست 2021 کے بعد وہاں کام کرنا مشکل تھا اور طالبان کے ساتھ رابطے شروع کرنے اور ان سے اپنی بات کہنے میں کچھ وقت لگا۔ تاہم اب انہوں نے صوبائی اور قومی سطح پر حکمرانوں میں اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے ساتھ اعتماد قائم کر لیا ہے۔ معیشت میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو سمجھنا ان کے لیے بہت اہم ہے۔
بوزوروکووا کا کہنا تھا کہ این جی اوز کے ساتھ مل کر ملک بھر میں خدمات مہیا کی جارہی ہیں، صحت و تعلیم کے شعبے میں ہمیں استثنیٰ دیا گیا ہے جہاں خواتین کام جاری رکھ سکتی ہیں لیکن یقیناً یہ پابندی ایک مشکل صورتحال ہے اور اس سے عملے کے حوصلے متاثر ہوتے ہیں۔