انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خلاء سے آئے بیج زمین پر کاشت کے لیے تیار

بین الاقوامی جوہری ادارے اور عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت نے گزشتہ سال نومبر میں خلاء میں بیج بھیجے تھے۔
© NASA
بین الاقوامی جوہری ادارے اور عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت نے گزشتہ سال نومبر میں خلاء میں بیج بھیجے تھے۔

خلاء سے آئے بیج زمین پر کاشت کے لیے تیار

پائیدار ترقی کے اہداف

خوراک اور ایٹمی توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے اختراعی 'خلائی نباتاتی'' تحقیق کے ثمرات حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ 2022 میں خلا میں بھیجے جانے والے بیج اب زمین پر واپس آنے کو ہیں۔

بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائیل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ ''مستقبل قریب میں سائنس ہمیں مضبوط فصلیں اگانے اور بہت بڑی آبادی کو خوراک مہیا کرنے میں مدد دے کر لوگوں کی زندگیوں پر حقیقی طور سے اثرانداز ہو سکتی ہے۔''

Tweet URL

ان اداروں کا کہنا ہے کہ اندازے کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی قریباً 10 ارب ہو جائے گی چنانچہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے اختراعی طریقوں کی نمایاں ضرورت ہے جو زیادہ مقدار میں خوراک پیدا کر سکیں اور ایسی فصلیں بھی درکار ہیں جو ناموافق حالات میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں اور ہمیں کھیتی باڑی کے ایسے طریقے اختیار کرنا ہیں جو پہلے سے زیادہ پائیدار ہوں۔

ستاروں پر کمند

اگرچہ ایسے تجربات 1946 سے کیے جا رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب آئی اے ای اے اور عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کرہ ارض پر رہنے والے لوگوں کے ممکنہ فائدے کے لیے پودوں میں تغیر لانے کے لیے 60 سال سے جاری تجربات کے سلسلے میں خلا میں بھیجے جانے والے بیجوں کا جینیاتی اور حیاتیاتی تجزیہ کر رہا ہے۔

اس تجربے کا مقصد ایسی نئی فصلیں تیار کرنا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مطابقت پیدا کر سکیں اور عالمگیر غذائی تحفظ کو بہتر بنانے میں مدد دیں۔

اس وقت خلا میں دو طرح کے بیج موجود ہیں۔ ان میں ایک 'ریبیڈوپسس' بیج کہلاتے ہیں جو کاہو کی ایک قسم ہیں جس کا ماہرین نباتیات و جینیات نے جامع جائزہ لیا ہے اور دوسرے بروا کے بیج ہیں جن کا تعلق باجرے کی نسل سے ہے جو خشک سالی اور گرمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بطور خوراک استعمال کرنے کے لیے اگایا جاتا ہے۔

یہ بیج 7 نومبر 2022 کو خلابازوں کے بغیر سفر کرنے والی ناسا کی ایک سامان بردار شٹل کے ذریعے خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کے اندر اور باہر کائناتی تابکاری، قلیل کشش ثقل اور شدید گرمی و سردی کا سامنا کیا۔

اپریل کے اوائل میں واپسی پر خوراک و زراعت میں جوہری طریقہ ہائے کار سے متعلق ایف اے او/آئی اے ای اے کے مشترکہ مرکز میں سائنس دان ان بیجوں کو اگائیں گے اور پھر ان کے مفید خواص کا جائزہ لیں گے تاکہ خلا میں موجودگی کے عرصہ میں ان بیجوں کے اندر رونما ہونے والے تغیر کو بہتر طور سے سمجھا جا سکے اور ان کی نئی اقسام تیار کی جا سکیں۔

زرعی غذائی نظام میں تبدیلی

اداروں کا کہنا ہے کہ جب یہ بیج اگائے جائیں گے تو پھر ان کا کئی طرح سے تجزیہ کیا جائے گا جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آیا کائناتی تابکاری اور خلا کے کڑے حالات زمین پر کاشت کے تیزی سے مشکل ہوتے ماحول میں فصلوں کو کس حد تک مزید مستحکم بنا سکتے ہیں۔

ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو کا کہنا ہے کہ ''مجھے آئی اے ای اے کے ساتھ اپنی شراکت پر بہت فخر ہے جس کے ساتھ ہم سالہا سال سے زمین اور اب خلا سے ہو کر آنے والے بیجوں کے بارے میں تحقیق کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔

میں فطرت کی مضبوطی اور طاقت پر حیرت زدہ ہوں اور زرعی غذائی نظام کو دنیا بھر میں مزید موثر، مزید مشمولہ، مزید مستحکم اور مزید پائیدار بنانے کے لیے خلائی کھوج کے ذریعے حاصل ہونے والے ممکنہ لامحدود فوائد کے حوالے سے بہت پرجوش ہوں۔''