انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ہر پانچواں ملازمت پیشہ فرد کام کی جگہ پر اذیت کا شکار: عالمی ادارہِ محنت

رپورٹ کے مطابق کام کی جگہ پر جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بننے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔
Unsplash/Eric Ward
رپورٹ کے مطابق کام کی جگہ پر جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بننے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔

ہر پانچواں ملازمت پیشہ فرد کام کی جگہ پر اذیت کا شکار: عالمی ادارہِ محنت

انسانی حقوق

دنیا میں ملازمت کرنے والے تقریباً 23 فیصد لوگوں کو کام کی جگہ پر نفسیاتی یا جنسی ہراسانی سمیت مختلف قسم کی اذیت کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بات آئی ایل او، امدادی ادارے لائیڈ رجسٹر فاؤنڈیشن اور گیلپ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔

عالمی ادارہِ محنت یا آئی ایل او نے سوموار کو شائع ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ کام کے دوران تشدد اور ہراسانی کے تجربے پر اس پہلے عالمگیر جائزے کا مقصد اس مسئلے کو بہتر طور سے سمجھنا اور اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے جس کی جڑیں پیچیدہ معاشی، سماجی اور ثقافتی عوامل میں پیوست ہیں۔

Tweet URL

'کام کی جگہ پر تشدد اور ہراسانی کا تجربہ: پہلا عالمگیر جائزہ' نامی یہ رپورٹ اس مسئلے کی وسعت تخمینہ لگاتی ہے اور اس میں ان عوامل کا تجزیہ کیا گیا ہے جو لوگوں کو اپنے تجربات کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے روکتے ہیں۔ ان میں شرم، پشیمانی یا اداروں پر عدم اعتماد یا ایسے  ناقابل قبول رویے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں ''معمول'' سمجھا جاتا ہے۔

تشدد، ہراسانی اور اخفاء

کام کی جگہ پر تشدد اور ہراسانی کو جانچنا مشکل کام ہے۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں متاثرین کی صرف نصف تعداد ہی نے اس حوالے سے اپنے تجربات سے کسی دوسرے شخص کو آگاہ کیا اور ایسا بھی عموماً تب ہوا جب متاثرہ فرد کو تواتر سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔

متاثرین نے دوسروں کو ان واقعات سے آگاہ نہ کرنے کی عام ترین وجہ یہ بتائی کہ ان کے خیال میں ایسا کرنا ''وقت کا ضیاع'' تھا اور بدسلوکی کا سامنا کرنے والوں نے اپنی ساکھ خراب ہونے کے خوف سے ایسا کرنے سے گریز کیا۔

جائزے کے مطابق ایسے واقعات کا سامنا کرنے والی خواتین کی جانب سے دوسروں کو اپنے تجربات سے آگاہ کرنے کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے (50.1 فیصد کے مقابلے میں 60.7 فیصد)

دنیا بھر میں ملازمت پیشہ 17.9 فیصد مرد و خواتین نے کہا کہ انہیں کام کرتے ہوئے کبھی نہ کبھی نفسیاتی تشدد اور ہراساں کیے جانے کا تجربہ ہو چکا ہے اور 8.5 فیصد نے جسمانی تشدد اور ہراسانی کا سامنا کیا۔ یہ بتانے والوں میں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ تھی۔

اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق اس جائزے میں جن لوگوں سے بات کی گئی ان میں سے 6.3 فیصد نے بتایا کہ انہیں جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا اور ایسے واقعات کا سامنا کرنے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔

انتہائی غیرمحفوظ کون؟

جائزے میں دی گئی معلومات کے مطابق تشدد کا سب سے زیادہ خطرہ نوجوانوں، پناہ گزین کارکنوں اور تنخواہ دار مرد و خواتین کو ہوتا ہے۔

نوجوان خواتین کو جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے کا امکان نوجوان مردوں سے دو گنا زیادہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ مہاجر خواتین کی جانب سے جنسی تشدد اور ہراساں کیے جانے کی شکایت کرنے کا امکان غیرمہاجر خواتین کی نسبت تقریباً دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔

ہر پانچ میں تین سے زیادہ متاثرین نے کہا کہ انہیں کئی مرتبہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ہراساں کیا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریت نے بتایا کہ ان کے ساتھ ایسا تازہ ترین واقعہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں پیش آیا۔

انتظام، حقوق اور مکالمے سے متعلق امور کے بارے میں آئی ایل او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل مینوئلا ٹومئی کا کہنا ہے کہ ''یہ جاننا تکلیف دہ ہے کہ لوگوں کو اپنے کام کے تمام عرصہ میں ایک کے بجائے کئی مرتبہ تشدد اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔''

پردہ اٹھتا ہے

گیلپ کے شراکت دار اینڈریو زیپا کہتے ہیں کہ ''اس انتہائی حساس مسئلے پر معلومات جمع کرنا ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ پہلی مرتبہ یہ رپورٹ وسیع پیمانے پر موجود اس مسئلے سے پردہ اٹھاتی ہے جو دنیا بھر میں 20 فیصد سے زیادہ کارکنوں کی زندگی کو تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔

''طویل عرصہ تک کمپنیاں اور ادارے اپنی کام کی جگہوں پر تشدد اور ہراسانی سے بے خبر یا اس پر قابو پانے کے لیے رضامند نہیں ہوتے۔ اس جائزے میں دی گئی معلومات ایک بنیاد مہیا کرتی ہیں تاکہ ہم سب کارکنوں کے تحفظ کی بابت اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار پیش رفت کے بارے میں جان سکیں۔''

خودمختار امدادی ادارے لائیڈ رجسٹر فاؤنڈیشن میں تصدیق اور آگاہی سے متعلق شعبے کی ڈائریکٹر سارہ کمبرز نے کہا ہےکہ تحفظ سے متعلق عالمگیر مسائل جیسا کہ کام کی جگہ پر تشدد اور ہراسانی جیسے مشکل اور گہرے مسئلے پر قابو پانے کے لیے خاطرخواہ معلومات کا ہونا ضروری ہے تاکہ مسئلے کی وسعت کو سمجھا جا سکے اور ان لوگوں کی نشاندہی کی جائے جنہیں ایسی جگہوں پر سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے جہاں اس مسئلے کی موجودگی کے بارے میں قبل ازیں بہت کم قابل اعتبار معلومات دستیاب ہوں۔

رپورٹ کی سفارشات

اس رپورٹ میں کی گئی چند سفارشات درج ذیل ہیں:

  • کام کی جگہ پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے بارے میں قومی، علاقائی اور عالمی سطح کی ٹھوس معلومات کو باقاعدگی سے جمع کیا جائے تاکہ اس مسئلے کی روک تھام اور تدارک کے لیے آگاہی پر مبنی قوانین، طریقہ ہائے کار، پالیسیاں اور پروگرام بنائے جا سکیں۔
  • تشدد اور ہراسانی کے مسئلے کے موثر تدارک اور اس پر قابو پانے کے لیے محنت کشوں سے متعلق معائنے کے نظام اور پیشہ وارانہ تحفظ و صحت کی پالیسیوں اور پروگراموں سمیت کئی طرح کے طریقہ ہائے کار کو وسعت دی جائے اور انہیں بہتر بنایا جائے۔
  • کام کی جگہ پر تشدد اور ہراسانی اور اس کی مختلف صورتوں کے بارے میں آگاہی کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں بدلتے تناظر، بدنامی، طرزعمل اور رویوں کو مدنظر رکھا جائے جو تشدد اور ہراسانی کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں، خاص طور پر جن کی بنیاد امتیازی سلوک پر ہوتی ہے۔
  • کام کی جگہ پر تشدد اور ہراسانی کے مسئلے کی موثر روک تھام، تدارک اور اس معاملے میں تعاون کے لیے ہر سطح پر اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ انصاف پر لوگوں کا اعتماد بڑھے اور متاثرین کی مدد یقینی بنائی جا سکے۔

آئی ایل او۔ایل آر ایف۔گیلپ کے تجزیے کی بنیاد 2021 میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تقریباً 75 ہزار نوکری پیشہ لوگوں سے کی گئی بات چیت پر ہے۔ ان لوگوں کا تعلق 121 ممالک اور علاقوں سے ہے اور یہ جائزہ لائیڈ رجسٹر فاؤنڈیشن کے ورلڈ رِسک پول کا حصہ ہے۔