انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سماج غلامی کی میراث سے آج بھی داغدار: گوتیرش

غلامی کے موضوع پر یونیسکو کے تحت پیرس میں ہوئی ایک نمائش۔
UNESCO/P. Chiang-Joo
غلامی کے موضوع پر یونیسکو کے تحت پیرس میں ہوئی ایک نمائش۔

سماج غلامی کی میراث سے آج بھی داغدار: گوتیرش

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کی میراث "آج بھی قائم ہے" جس کے ساتھ دورِ جدید کی غلامی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

2 دسمبر کو غلامی کے خاتمے کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں انتونیو گوتیرش نے کہا کہ معاشرے غلام بنائے جانے والے افریقیوں کے تاریخی مصائب کو یاد کر کے آج بھی خوف زدہ ہیں اور تمام لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

Tweet URL

'غلامی کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے'

اقوام متحدہ کے سربراہ نے دور حاضر میں انسانوں کی خریدوفروخت (انسانی سمگلنگ) سے لے کر جنسی استحصال، بچہ مزدوری، جبری شادی اور بچوں کو مسلح جنگ میں استعمال کرنے تک ہر طرح کی غلامی کی نشاندہی اور اس کے خاتمے کے عزم کی تجدید کرنے پر بھی زور دیا۔

گوتیرش نے جبری مشقت اور جبری شادیوں کے حوالے سے دورِ جدید کی غلامی کے بارے میں تازہ ترین عالمگیر تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں پانچ کروڑ لوگ غلام تھے۔

انہوں نے واضح کیا کہ نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں جیسے پسماندہ طبقات اور پناہ گزینوں، بچوں اور ایل جی بی ٹی آئی افراد کو اس معاملے میں سب سے زیادہ خطرہ ہے اور خواتین غلامی کی بہت سی صورتوں کے مقابل غیرمحفوظ ترین طبقہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نجی شعبے، محنت کشوں کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں سمیت تمام فریقین کی مکمل شرکت سے بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے۔''

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''میں تمام ممالک پر بھی زور دیتا ہوں کہ وہ غلامی کے متاثرین کے حقوق کا تحفظ کریں انہیں برقرار رکھیں۔''

'غلامی بڑھ رہی ہے'

عالمی ادارہِ محنت (آئی او ایل) کے تازہ ترین اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں جبری مشقت اور جبری شادیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمگیر اندازوں کے مطابق 2021 میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 2016 کے مقابلے میں ایک کروڑ زیادہ تھی۔ اس طرح دنیا بھر میں غلامی کی مختلف اقسام کا سامنا کرنے والوں کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔

اگرچہ قانون میں جدید غلامی کی تعریف متعین نہیں کی گئی تاہم یہ لفظ جبری مشقت، قرض کی عدم ادائیگی پر غلام بنائےجانے، جبری شادی اور انسانوں کی خریدوفروخت کا احاطہ کرنے والی وسیع اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

'غلامی اب بھی برقرار ہے'

غلامی استحصال کی تمام صورتوں کا احاطہ کرتی ہے جن میں کوئی فرد خطرات، تشدد، جبر، دھوکے یا محض طاقت کے غلط استعمال کے باعث کسی ناجائز بات سے انکار کرنے یا مخصوص حالات سے نکلنے کے قابل نہیں ہوتا۔

جدید غلامی نسلی، ثقافتی اور مذہبی حدود سے قطع نظر دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔

روایتی سوچ سے برعکس ہر طرح کی تقریباً 52 فیصد جبری مشقت اور ایک چوتھائی جبری شادیاں بالائی متوسط درجے یا اونچے درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔

تجارتی بنیادوں پر جبری جنسی استحصال کا سامنا کرنے والے لوگوں میں تقریباً 80 فیصد خواتین اور لڑکیاں ہیں۔

جبری مشقت پر 'معلومات کا ذخیرہ'

عالمی دن کی مطابقت سے آئی ایل او جبری مشقت کا جائزہ لینے کا ایک نیا طریقہ کار (ایف ایل او) شروع کر رہا ہے جو  آئی ایل او کے 'برِج پراجیکٹ' نے اقوام متحدہ کے ادارہء محنت کے منتظمین کی جانب سے ''جبری مشقت اور انسانوں کی خرید و فروخت پر معلومات کا نیا عالمگیر ذخیرہ'' تیار کرنے کی درخواست پر بنایا ہے۔

ایف ایل او کا ڈیٹا بیس جبری مشقت پر عالمی اور ملکی سطح کی معلومات کا ذخیرہ اور جبری مشقت کی لعنت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا فوری ذریعہ ہو گا۔

اس سلسلے میں آئی ایل او کے تمام 187 رکن ممالک میں غلامی کی صورتحال کا خاکہ تیار کیا گیا ہے جس کے لیے اچھی شہرت کے حامل ذرائع سے عام دستیاب معلومات سے مدد لی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد اس جرم پر قابو پانے کے لیے ہر ملک کے اقدامات کا سرسری جائزہ پیش کرنا ہے۔