انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان میں انسانی بحران بدستور تشویشناک، امدادی ادارے

افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں آٹھ بچوں کی اس ماں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔
© UNICEF/Mark Naftalin
افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں آٹھ بچوں کی اس ماں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔

افغانستان میں انسانی بحران بدستور تشویشناک، امدادی ادارے

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور معاشی مندی افغانستان کے بحران میں اضافہ کر رہی ہے اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم بحال کرنے کے لیے کوئی ''حوصلہ افزا پیش رفت' بھی سامنے نہیں آئی۔

اقوام متحدہ کے نائب خصوصی نمائندے اور افغانستان کے لیے امدادی رابطہ کار رمیز الاکباروو نے نیویارک میں صحافیوں کو ملک کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جہاں اب 28 ملین لوگوں کی بقا کا دارومدار امداد پر ہے۔

بے پایاں امدادی ضروریات

انہوں نے افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''اگرچہ ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے آئے ہیں لیکن دنیا میں سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا افغانستان کو ہے۔''

اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار اس سال افغان لوگوں کی مدد کے لیے 4.6 بلین ڈالر کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔

رمیز الاکباروو نے بتایا کہ گزشتہ 18 مہینوں میں افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 35 فیصد تک کمی آئی اور بنیادی ضرورت کی خوراک کی قیمتوں میں 30 فیصد جبکہ بیروزگاری میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا۔

علاوہ ازیں، اب اندازاً 75 فیصد لوگوں کی آمدنی محض خوراک خریدنے پر خرچ ہو رہی ہے۔

لڑکیوں کے حقوق کی حمایت

اقوام متحدہ لڑکیوں کی ثانوی درجے کی تعلیم اور خواتین کے مقامی اور بین الاقوامی غیرسرکاری اداروں میں کام کرنے پر پابندی کے احکامات جاری ہونے کے بعد ملک کے طالبان حکمرانوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ 

الاکباروو نے کہا کہ ''مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ اب تک ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی خبر یا کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں دیکھی۔ اقوام متحدہ اس مقصد کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔''

امدادی کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کے امدادی شعبے کے سربراہ مارٹن گرفتھس کے دورے کے بعد صحت اور تعلیم کے شعبے میں خواتین کے امدادی کام کرنے پر پابندی اٹھا لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''صحت کے شعبے میں خواتین کے کام پر پابندی اٹھائے جانے کا اطلاق محض ہسپتالوں میں طبی خدمات کی فراہمی پر ہی نہیں بلکہ نفسیاتی مدد، مقامی سطح پر طبی خدمات اور غذائیت مہیا کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ اس طرح دفاتر، ہسپتالوں، طبی مراکز یا موبائل ٹیموں میں کام کرنے والی تمام خواتین اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔

تعلیم کی صورتحال

خواتین اساتذہ بشمول غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے ذریعے مقامی سطح پر تعلیم مہیا کرنے والی خواتین کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ خواتین کے کام پر پابندی اٹھائے جانے کا اطلاق ملکی سطح پر ہوتا ہے لیکن ہر صوبے میں اس حوالے سے مقامی سطح پر کئی طریقے رائج ہیں جن کی ہر صوبے میں الگ نوعیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ مقامی طریقہ ہائے کار ہمیشہ کسی علاقے کے مقامی حالات کے مطابق ہوتے ہیں جن میں محرم (مرد سرپرست) کی موجودگی، بسوں میں مردوخواتین کے لیے الگ جگہوں کی دستیابی اور چادر یا حجاب کے اطلاق جیسے معاملات اہم ہیں۔

مداخلت اور یقین دہانیاں

الاکباروو سے امدادکی فراہمی کے عمل میں طالبان کی مداخلت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ''سنگین واقعات'' میں امداد کی فراہمی روکی گئی اور گزشتہ چار ماہ کے دوران کم از کم دو صوبوں میں ایسے واقعات پیش آئے۔ تاہم مسئلہ حل ہونے کے بعد امداد کی فراہمی بحال کر دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ''رسائی کے حوالے سے بیشتر واقعات اور ان دنوں پروگراموں کی عارضی معطلی کے اسباب کا تعلق قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین کے خلاف احکامات اور ان سے منسلکہ معاملات سے ہے۔

اس کا تعلق سکیورٹی کی صورتحال سے نہیں اور ہمیں ملک بھر میں خاصی بہتر رسائی حاصل ہے۔''

رمیز الاکباروو نے اس سوال کا جواب بھی دیا کہ اقوام متحدہ یہ کیسے یقینی بنا رہا ہے کہ امداد طالبان کے ہاتھ نہ لگنے پائے۔ اس حوالے سے انہوں نے درپیش خدشات سے نمٹںے اور ان کی روک تھام کے طریقہ ہائے کار کے بارے میں بتایا۔ ان میں ادائیگی کی تصدیق کا نظام اور تیسرے فریق کی نگرانی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

مکمل انسانی حقوق

مزید برآں، متعلقہ لوگ براہ راست ٹیلی فون لائن اور دیگر ذرائع بشمول ''شکایات کرنے یا خدشات کا اظہار کرنے یا آواز بلند کرنے جیسے دیگر ذرائع سے بھی اقوام متحدہ کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔

اعلیٰ سطحی امدادی عہدیدار سے تعلیم اور امدادی کاموں میں لڑکیوں اور خواتین کی شمولیت پر پابندی کے حوالے سے طالبان قیادت کے مابین اختلافات کی اطلاعات کے بارے میں بھی پوچھا گیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر بات کرنا مناسب نہیں۔

اس کے بجائے انہوں ںے زور دیا کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی لڑکیوں اور خواتین کا معاشرے کے ایک مکمل حصے کے طور پر کردار کو یقینی بنائیں جس میں ان کا کام کے قابل ہونا، تعلیم حاصل کرنا اور طبی نگہداشت اور دیگر خدمات تک رسائی بھی شامل ہے۔