انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا کے وسیع علاقے 2021 میں غیر معمولی خشک سالی کا شکار رہے: ڈبلیو ایم او

ڈبلیو ایم او کے مطابق 3.6 ارب لوگوں کو سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی تک خاطرخواہ رسائی حاصل نہیں ہوتی اور 2050 تک ایسے لوگوں کی تعداد پانچ ارب تک پہنچنے کا امکان ہے۔
© WFP/Tsiory Andriantsoarana
ڈبلیو ایم او کے مطابق 3.6 ارب لوگوں کو سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی تک خاطرخواہ رسائی حاصل نہیں ہوتی اور 2050 تک ایسے لوگوں کی تعداد پانچ ارب تک پہنچنے کا امکان ہے۔

دنیا کے وسیع علاقے 2021 میں غیر معمولی خشک سالی کا شکار رہے: ڈبلیو ایم او

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے نے کہا ہے کہ 2021 میں دنیا کے بیشتر حصے معمول سے زیادہ خشک رہے جس کے ''معیشتوں، ماحول اور روزمرہ زندگیوں پر مسلسل منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں''۔

عالمگیر آبی ذرائع پر ادارے کی پہلی رپورٹ کے مطابق دنیا کے جن خِطوں میں گزشتہ سال موسم غیرمعمولی طور پر خشک رہا ان میں جنوبی امریکہ میں ریو ڈی لا پلاٹا کا علاقہ بھی شامل ہے جو 2019 سے متواتر خشک سالی کا شکار ہے۔

Tweet URL

2021 میں افریقہ میں نائیجر، وولٹا، نیل اور کانگو جیسے بڑے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ اوسط درجے سے کم رہا۔ اسی رحجان کا مشاہدہ روس، مغربی سائبیریا اور وسطی ایشیا کے بہت سے حصوں میں بہنے والے دریاؤں میں بھی کیا گیا۔

دوسری جانب شمالی امریکہ کے بعض طاس، شمالی ایمیزون، جنوبی افریقہ اور چین کے دریائے آمور کے طاس میں اور شمالی انڈیا میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ معمول سے زیادہ رہا۔

گزشتہ سال افریقہ میں نائیجر، وولٹا، نیل اور کانگو نیز روس، مغربی سائبیریا اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں میں دریاؤں سے پانی کا اخراج معمول کی حد سے کم رہا۔

ڈبلیو ایم او نے کہا ہے کہ 3.6 ارب لوگوں کو سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی تک خاطرخواہ رسائی حاصل نہیں ہوتی اور 2050 تک ایسے لوگوں کی تعداد پانچ ارب تک پہنچنے کا امکان ہے۔

موسمیاتی بحران

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹیلس نے کہا ہے کہ ''موسمیاتی تبدیلی کے اثرات عموماً پانی کے ذریعے محسوس کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے مزید شدید اور متواتر خشک سالی، مزید شدت کے سیلابوں، مزید بے ترتیب موسمی بارشوں اور گلیشیئروں کے پگھلنے کی رفتار میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے جس کے سلسلہ وار منفی اثرات معیشتوں، ماحولی نظام اور ہماری روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر پڑتے ہیں۔''

''اس تمام صورتحال کے ہوتے ہوئے بھی تازہ پانی کے ذرائع کی تقسیم اور اس کی مقدار اور معیار میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے خاطرخواہ سمجھ بوجھ کا فقدان ہے۔''

انہوں نے کہا کہ 'عالمگیر آبی ذرائع کی صورتحال' کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ کا مقصد ''اس مسئلے پر معلومات کی کمی کو دور کرنا اور دنیا کے مختلف حصوں میں پانی کی دستیابی کے حوالے سے مختصر جائزہ پیش کرنا ہے۔''

''اس سے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری اور آئندہ پانچ برس میں سیلاب اور خشک سالی جیسے خطرات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام تک دنیا بھر کی رسائی کے لیے اقوام متحدہ کی مہم کے سلسلے میں آگاہی پر مبنی فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔''

دریا لوگون کا سیلابی پانی شمالی کیمرون کے کوثری ضلع میں داخل ہوگیا تھا۔
© UNHCR/Moise Amedje Peladai
دریا لوگون کا سیلابی پانی شمالی کیمرون کے کوثری ضلع میں داخل ہوگیا تھا۔

ہر طرف پانی ہی پانی

پانی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق 2001 اور 2018 کے درمیان 74 فیصد تمام قدرتی آفات کا تعلق پانی سے تھا۔

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی حالیہ کانفرنس 'کاپ 27' میں حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں کو پانی سے متعلق مسائل کے ساتھ مزید مربوط کریں۔ ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب اس کانفرنس کے نتائج پر مبنی دستاویز میں پانی کا حوالہ دیا گیا جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے میں اس کی اہمیت کا اعتراف تھا۔

اس رپورٹ کا پہلا ایڈیشن پانی کے بہاؤ یعنی کسی مخصوص وقت میں دریائی ذریعے سے بہنے والے پانی کی مقدار سے متعلق ہے۔ رپورٹ میں پانی کے ارضی ذخیرے یعنی سطح زمین اور اس سے نیچے منجمد ارضی تہہ میں موجود تمام پانی کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں ایک بنیادی مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے جو کہ پانی  کے بارے میں مصدقہ دستیاب معلومات کے فقدان سے متعلق ہے۔

ڈبلیو ایم او کی یکجا معلومات سے متعلق پالیسی کا مقصد پانی سے متعلق معلومات بشمول دریاؤں سے پانی کے اخراج اور سرحدوں کے آر پار دریائی طاس سے متعلق معلومات کی فوری دستیابی اور تبادلہ ممکن بنانا ہے۔

'منفی رحجانات حاوی ہیں'

دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں فرق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو امریکہ کے مغربی ساحل، جنوبی امریکہ کے وسط اور پیٹاگونیا، شمالی افریقہ اور مڈغاسکر، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ، پاکستان اور شمالی انڈیا سمیت کرہ ارض پر پانی کے ذخائر میں مجموعی بہاؤ معمول سے کم رہا۔

وسطی افریقہ، جنوبی امریکہ کے شمالی حصے خصوصاً ایمیزون کے طاس اور شمالی چین کے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ معمول سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

ڈبلیو ایم او نے پیٹاگونیا، گنگا اور دریائے سندھ کے دھانوں اور امریکہ کے جنوب مغربی دریاؤں پر متعدد خطرناک تشویشناک جگہوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مجموعی طور پر پانی کے بہاؤ کے حوالے سے منفی رحجانات مثبت کی نسبت زیادہ قوی ہیں۔''

ارجنٹائن اور چلی کے گلیشیئر گزشتہ دو دہائیوں میں کم ہوئے ہیں۔
WMO

منجمد پانی

گلیشیئر، پہاڑوں پر جمی برف، برفانی چوٹیاں اور مخصوص مقامات پر زمین کی اندرونی منجمد تہہ دنیا میں تازہ پانی کے سب سے بڑے فطری ذخائر ہیں۔

ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ ''کرہ ارض پر برف کی صورت میں پائے جانے والے پانی کے ذخائر غذائی تحفظ، انسانی صحت، ماحولی نظام اور سالمیت و حفاظت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور معاشی و سماجی ترقی پر نمایاں اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دریاؤں میں سیلاب اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے اچانک آنے والے سیلابی ریلوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ عام طور پر پہلے گلیشیئروں کے پگھلنے کی سالانہ رفتار بڑھ جاتی ہے اور جب یہ صورتحال ایک اہم موڑ پر پہنچ جاتی ہے جسے عموماً 'پانی کا عروج' کہا جاتا ہے تو یہ رفتار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے طویل مدتی مطابقت پیدا کرنے سے متعلق فیصلوں میں گلیشیئروں کے پگھلنے اور پانی کے عروج کے وقت سے متعلق طویل مدتی پیش گوئیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔