انسانی کہانیاں عالمی تناظر
زراعت، مطابقت اور برداشت پر عالمی رہنماؤں کی توجہ دلانے کے لیے مظاہرین کاپ 27 کانفرنس کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔

مطابقت یا بھوک: کاپ 27 میں موسمیاتی بحران اور زرعی شعبہ کو درپش مشکلات پر توجہ

Laura Quinones
زراعت، مطابقت اور برداشت پر عالمی رہنماؤں کی توجہ دلانے کے لیے مظاہرین کاپ 27 کانفرنس کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔

مطابقت یا بھوک: کاپ 27 میں موسمیاتی بحران اور زرعی شعبہ کو درپش مشکلات پر توجہ

موسم اور ماحول

شرم الشیخ میں جاری عالمی موسمیاتی کانفرنس کاپ 27 میں جب موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں مطابقت پذیری، زراعت اور خوراک کے نظام سے متعلق اہم مسئلے پر توجہ مبذول کی گئی تو یہ جذبہ وہاں ہر جگہ محسوس کیا گیا۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی (آئی ایف اے ڈی) کے لیے خیرسگالی سفیر سبرینا ڈورے ایلبا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ''ہمیں دیہی آبادیوں کو موسمی شدت کے واقعات کے خلاف مضبوط ہونے میں مدد دینے اور انہیں بدلتے موسم کے مطابق ڈھالنے کے لیے مدد دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اہم ایسا نہیں کرتے تو ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ چھوٹے کاشتکار مشکل حالات میں ہمارے لیے خوراک پیدا کرنے میں کڑی محنت کرتے ہیں۔''

ڈورے ایلبا کا کہنا تھا کہ صومالی خاتون ہونے کے ناطے یہ مسئلہ ان کے لیے ذاتی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت جب کاپ 27 جاری ہے تو ان کا ملک مسلسل چوتھے سال بارشوں سے محروم ہے۔ یہ ایسے موسمیاتی حالات ہیں جو گزشتہ 40 سال میں کبھی نہیں دیکھے گئے۔

انہوں ںے ترقی یافتہ ممالک پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سیاسی ارادہ اور سرمایہ کاری جمع کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ ''پوری شاخِ افریقہ میں مائیں، خاندان اور کسان تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے حالات میں میرے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ممکن نہیں۔ آج کل اس خطے کو حالیہ تاریخ کی کڑی ترین خشک سالی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''کووڈ۔19 وبا اور اس کے معاشی اثرات پر قابو پانے کے لیے کئی ٹریلین ڈالر مہیا کیے گئے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو پائیدار مدد مہیا کرنے کے لیے بھی اسی کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنا ہم تمام لوگوں کی بہبود اور غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

مغربی نیپال میں کاشتکار بڑھتے درجہ حرارت اور غیر یقینی بارشوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔
© CIAT/Neil Palmer
مغربی نیپال میں کاشتکار بڑھتے درجہ حرارت اور غیر یقینی بارشوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔

مطابقت کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ضروری

آئی ایف اے ڈی کی ریجنل ڈائریکٹر دینا صالح نے واضح کیا کہ دیہی آبادیوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دینے میں ناکامی کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں جو ہمیں طویل غربت، مہاجرتوں اور تنازعات کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اسی لیے آج ہم ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھنے والے عالمی رہنماؤں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مالیات کی مد میں سالانہ 100 ارب ڈالر مہیا کرنے اور اس میں ںصف رقم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ پورا کریں۔

تیرہ سال پہلے کوپن ہیگن میں منعقدہ کاپ 15 کے موقع پر ترقی یافتہ ممالک نے ایک اہم وعدہ کیا جو یہ تھا کہ وہ 2020 تک کم آمدنی والے ممالک کو سالانہ 100 ارب ڈالر مہیا کریں گے تاکہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے اور مستقبل میں عالمی حدت میں اضافے کو محدود رکھنے میں مدد مل سکے۔ تاہم یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔

صالح نے خبردار کیا کہ غریب دیہی آبادیوں کو بقا اور اپنے لوگوں کو تحفظ کی فراہمی میں مدد دینے کے لیے ''محدود راستہ'' باقی ہے اور اس صدی کے آخر تک فصلوں کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں ایک انتخاب کرنا ہے کہ یا تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کر لیں یا بھوکے مر جائیں۔''

ایک نیا اقدام

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کاپ 27 کی مصری صدارت نے جمعے کو 'پائیدار تبدیلی کے لیے خوراک و زراعت' (فاسٹ) کے نام سے ایک نیا اقدام شروع کیا جس کے ذریعے 2030 تک زراعت اور خوراک کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی غرض سے مہیا کی جانے والی مالیات کا معیار و مقدار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

باہمی تعاون پر مبنی اس اقدام کی بدولت ممالک کو موسمیاتی مالیات اور سرمایہ کاری تک رسائی، متعلقہ علم میں اضافے اور پالیسی کے حوالے سے مدد اور بات چیت کے ضمن میں ٹھوس نتائج حاصل ہوں گے۔

کینیا میں کسانوں کے تربیتی پروگرام میں سبزیوں کا ایک سٹال۔
© FAO/Fredrik Lerneryd
کینیا میں کسانوں کے تربیتی پروگرام میں سبزیوں کا ایک سٹال۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) دیگر اداروں کے ساتھ مل کر اس اقدام میں سہولت دے گا۔ ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر زیتونی اولد دادا کے مطابق اس سے زراعت کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں میں مرکزی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔

انہوں ںے یو این نیوز کو بتایا کہ ''پیغام یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ زراعت کو موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔''

اختراع میں سرمایہ کاری کی اہمیت

انہوں ںے واضح کیا کہ زراعت اور خوراک کا شعبہ جہاں موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے وہیں پیداوار اور کھپت کے ذریعے دنیا بھر میں ایک تہائی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار بھی ہے اور اسی لیے زرعی غذائی نظام کو تبدیل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہم خوراک کی پیداوار کے حالیہ نمونے کوجاری نہیں رکھ سکتے جس میں پیداوار کے حصول کے بعد زمین کی حالت خراب ہو جاتی ہے، حیاتی تنوع میں زوال آتا ہے اور ماحول متاثر ہوتا ہے۔ نہیں، اس طریقہ کار کو پائیدار ہونا چاہیے۔''

انہوں نے واضح کیا کہ اگر درست سمت میں کام کیا جائے تو زرعی شعبہ زمین اور پودوں سے کاربن کو علیحدہ کرنے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے اور ان کے خلاف مضبوطی اختیار کرنے کے اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کی موجودگی میں ہم بڑھتی ہوئی آبادی کو حالیہ طریقہ کار کے تحت خوراک اور غذائیت مہیا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔''

انہوں ںے کہا کہ دنیا کو سب سے پہلے خوراک کے ضیاع کے مسئلے پر قابو پانا ہے جس کا دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں آٹھ فیصد حصہ ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ''دنیا بھر میں روزانہ تقریباً 828 ملین لوگ بھوکے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم انسانی استعمال کے لیے پیدا کی جانے والی خوراک کا ایک تہائی ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ اور اپنا پیداواری نمونہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم خوراک ضائع کرنے سے بچ سکیں۔''