انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان میں خواتین کے خلاف تباہ کن قوانین ختم ہونے چاہیں: وولکر ترک

خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی سے وہ خود اور ان کے اہلخانہ آمدنی سے محروم ہو جائیں گے۔
UNAMA/Fraidoon Poya
خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی سے وہ خود اور ان کے اہلخانہ آمدنی سے محروم ہو جائیں گے۔

افغانستان میں خواتین کے خلاف تباہ کن قوانین ختم ہونے چاہیں: وولکر ترک

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نےکہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے نقصان دہ پالیسیوں کے ان کی زندگی پر ''مسلسل خوفناک اثرات'' مرتب ہو رہے ہیں اور ان سے معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ''کوئی ملک اپنی نصف آبادی کو علیحدہ کر کے ناصرف سماجی و معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے خود کو قائم رکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی جانے والی ان بے انتہا پابندیوں سے ناصرف افغانوں کے مصائب میں اضافہ ہو گا بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ اس سے افغانستان کی سرحدوں کے باہر بھی خطرات جنم لیں گے۔''

Tweet URL

انہوں نے افغانستان کے حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے مضر پالیسیوں کو فوری واپس لیں۔

انہوں نے کہا کہ ''میں افغان حکام پر زور دیتا ہوں کہ وہ افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی مطابقت سے تمام خواتین اور لڑکیوں کے نظر آنے، سنے جانے اور ملک کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام پہلوؤں میں شرکت اور اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق حقوق کا احترام اور تحفظ یقینی بنائیں۔''

کام پر پابندی

24 دسمبر کو افغان حکمرانوں نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ وہ خواتین کو تاحکم ثانی یونیورسٹی کی تعلیم اور لڑکیوں کو ثانوی سکول کی تعلیم سے پہلے ہی روک چکے تھے۔

ہائی کمشنر نے کہا کہ ''افغان حکمرانوں کی جانب سے جاری کردہ ان تازہ ترین احکامات کے خواتین اور تمام افغان لوگوں کے لیے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی سے وہ خود اور ان کے اہلخانہ آمدنی سے محروم ہو جائیں گے اور وہ اپنے ملک کی ترقی اور ہم وطن شہریوں کی بہبود کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کا حق کھو دیں گی۔'' 

عام لوگوں کا نقصان

این جی اوز اور امدادی ادارے افغانستان  میں بہت سے لوگوں کو تحفظِ زندگی میں مددگار خدمات بہم پہنچاتے ہیں جن میں خوراک، پانی، پناہ، طبی سہولیات اور قبل و بعداز زچگی بچے کی نگہداشت جیسے اہم پروگرام بھی شامل ہیں جن میں خواتین کے ذریعے ہی معاونت فراہم کی جا سکتی ہے۔

ان این جی اوز کے لیے کام کرنے والے عملے کی بہت سی ارکان خواتین ہیں اور بہت سے اداروں میں خواتین قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ خواتین ملک بھر میں امدادی و ترقیاتی پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی لازمی شراکت دار ہیں۔

ترک نے مزید کہا کہ ''اس پابندی سے این جی اوز کی ضروری خدمات پہنچانے کی صلاحیت ختم نہیں تو نمایاں طور سے کمزور ضرور پڑ جائے گی۔ ان خدمات پر بہت سے غیرمحفوظ افغانوں کا انحصار ہے۔

افغانستان میں سردی کے موسم میں یہ صورتحال اور بھی پریشان کن ہے جبکہ ہم جانتے ہیں اس وقت امدادی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور ان این جی اوز کا کام پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔''

ظلم کا نشانہ

ہائی کمشنر نے اس بات پر بھی گہری تشویش ظاہر کی کہ افغان معاشرے میں بڑھتی ہوئی مشکلات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر خواتین اور لڑکیاں جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد اور گھریلو تشدد کے سامنے مزید غیرمحفوظ ہو جائیں گی۔

ترک نے کہا کہ ''خواتین اور لڑکیوں کو ان کے انسانی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ موجودہ حکمرانوں کی جانب سے انہیں خاموش اور پوشیدہ رکھنے کی کوششوں سے انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ اس کے بجائے ان کوششوں سے تمام افغانوں کو نقصان پہنچے گا، ان کے مصائب بڑھ جائیں گے اور ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ آئے گی۔ ایسی پالیسیوں کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔''

ہرات میں ایک مسجد کے باہر خواتین اور بچے بھیک کے منتظر ہیں۔
UNAMA/Abdul Hamed Wahidi
ہرات میں ایک مسجد کے باہر خواتین اور بچے بھیک کے منتظر ہیں۔