انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: اقوام متحدہ کا طالبان سے لڑکیوں کو سکولوں تک مکمل رسائی دینے کا دوبارہ مطالبہ

طالبان کے اس اعلان کے بعد کہ لڑکیوں کے ساتویں جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک کے تعلیمی ادارے بند رہیں گے، ایک تیرہ سالہ لڑکی گھر میں پڑھنے پر مجبور ہے
© UNICE/Mohammad Haya Burhan
طالبان کے اس اعلان کے بعد کہ لڑکیوں کے ساتویں جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک کے تعلیمی ادارے بند رہیں گے، ایک تیرہ سالہ لڑکی گھر میں پڑھنے پر مجبور ہے

افغانستان: اقوام متحدہ کا طالبان سے لڑکیوں کو سکولوں تک مکمل رسائی دینے کا دوبارہ مطالبہ

افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے لڑکیوں کو ہائی سکولوں میں جانے سے روکنے کا حکم جاری کیے جانے کو ایک سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر ''انہیں سکولوں میں واپس آنے کی اجازت دیں۔''

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اتوار کو ٹویٹ کے ذریعے ذاتی طور پر ایک پُرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 12 مہینے  ''ان لڑکیوں کے لیے علمی نقصان اور مواقع کھونے کا سال تھا جنہیں وہ کبھی واپس نہیں لے پائیں گی۔''

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے گوتیرش کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندی فوری طور پر واپس لی جائے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاونتی مشن یو این اے ایم اے یا یونیما کے قائم مقام سربراہ مارکوس پوٹزیل نے اتوار کو اس پابندی کا ایک سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ یہ ایک ''المناک، شرمناک اور مکمل قابل احتراز '' اقدام ہے۔

پوٹزیل کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو سکولوں میں ثانوی جماعتوں کی تعلیم کے حصول سے روکنے کا ''کوئی قرین عقل جواب نہیں ہے اور دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔''

گمشدہ نسل

انہوں ںے مزید کہا کہ گزشتہ سال اگست میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے کابل پر تیزرفتار قبضے کے فوری بعد لیا جانے والا یہ فیصلہ ''لڑکیوں کی ایک پوری نسل اور افغانستان کے مستقبل کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔''

گزشتہ سال 18 ستمبر کو جب افغانستان میں لڑکوں کے لیے ہائی سکولوں کو کھولا گیا تو طالبان حکمرانوں نے 12 سے 18 سال تک عمر کی لڑکیوں کو گھروں میں رہنے کا حکم جاری کیا جس کا اطلاق ساتویں سے بارہویں جماعت تک زیرتعلیم لڑکیوں پر ہوتا تھا۔

اس اقدام کی عالمی سطح پر ہونے والی مذمت اور افغان حکام کی جانب سے صورتحال جلد معمول پر لانے کے وعدوں کے باوجود اندازے کے مطابق پچھلے ایک سال میں دس لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو ہائی سکول کی تعلیمی سے روکا گیا ہے۔

مواقع محدود ہو رہے ہیں

پوٹزیل افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نائب خصوصی نمائندے بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ''اقوام متحدہ طالبان سے دوبارہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ افغان عورتوں اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے اقدامات واپس لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''عورتوں اور لڑکیوں کے لیے مواقع شاید محدود ہو رہے ہیں لیکن ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی سکولوں کو واپسی ممکن بنانے جیسے ٹھوس اقدامات اٹھائیں جن کی بدولت افغانستان ترقی کر سکتا ہے اور اس کے لوگوں کو امید ملے گی۔''

افغانستان سے متعلق امور کے ماہر اور سابق سفارت کار پوٹزیل حالیہ دنوں افغانستان میں جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ''امن، شمولیت، سلامتی، انسانی حقوق اور معاشی بحالی کے لیے سازگار حالات پیدا کریں۔''

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری ایسی حکومت کی مدد کے لیے ''تیار ہے'' جو اپنے تمام لوگوں کی نمائندہ ہو اور ان کے حقوق کا احترام کرے۔''