انسانی کہانیاں عالمی تناظر

معاشی سست روی کارکنوں کو ’غیر معیاری‘ کام پر مجبور کر سکتی ہے

بنگلہ دیش میں کپڑے بنانے کا ایک کارخانہ۔
ILO/Marcel Crozet
بنگلہ دیش میں کپڑے بنانے کا ایک کارخانہ۔

معاشی سست روی کارکنوں کو ’غیر معیاری‘ کام پر مجبور کر سکتی ہے

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے محنت نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں متواتر معاشی بدحالی کے باعث اس سال اچھی اور بہتر اجرتوں والی نوکریاں ڈھونڈںا مشکل ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق 2023 میں عالمی سطح پر روزگار میں صرف ایک فیصد اضافہ ہو گا جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔

Tweet URL

دنیا بھر میں بےروزگار لوگوں کی تعداد میں بھی قدرے اضافے کی توقع ہے جو 208 ملین تک پہنچ جائے گی۔

عالمگیر بیروزگاری اور سماجی امکانات کے رحجان سے متعلق آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق یہ بیروزگاری کی عالمگیر شرح کے مساوی ہے جو اس وقت 5.8 فیصد (یا 16 ملین افراد) ہے۔

کم اجرت، کم اوقات کار

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ''اس وقت جاری معاشی گراوٹ کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے کارکنوں کو کم معیار والی نوکریاں قبول کرنا پڑیں گی جن کے عوض عموماً بہت کم اجرت ملتی ہے اور بعض اوقات بہت کم گھنٹوں کا کام میسر آتا ہے۔''

یوکرین میں جاری جنگ اور تجارتی اشیا کی ترسیل کے عالمگیر نظام میں آںے والے متواتر خلل کے باعث یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پہلے ہی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں خطے کووڈ۔19 بحران پر قابو پانے کے لیے اٹھائے جانے والے معاشی اقدامات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔

آئی ایل او کے تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر رچرڈ سیمینز نے کہا ہے کہ ''ہمارے اندازے کے مطابق 2022 میں جدید ممالک میں جتنی حقیقی اجرتوں کی پیش گوئی کی گئی ان میں 2.2 فیصد تک کمی آئی ہے اور یقیناً جدید ممالک کی ایک بڑی تعداد یورپ کا حصہ ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں حقیقی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔''

غیررسمی معیشت کو زوال

اتنا ہی تشویشناک یہ امکان ہے کہ دنیا کے دو ارب غیر رسمی کارکنوں کو سماجی تحفظ اور تربیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے باضابطہ روزگار کے شعبے میں شمولیت میں مدد دینے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔

انتظامی امور، حقوق اور مکالمے سے متعلق آئی ایل او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل مینوئلا ٹومئے نے کہا ہے کہ ''2004 اور 2019 کے درمیان ہم نے دنیا بھر میں غیررسمی نوکریوں میں پانچ فیصد کمی کا مشاہدہ کیا تاہم قوی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ پیش رفت پلٹ جائے گی۔''

جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ''خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ملازمتوں کی بحالی ہے جہاں غیررسمی نوکریوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔''

تنزانیہ کے شہر دارالسلام میں ایک کارخانہ مزدور۔
© ILO/Marcel Crozet
تنزانیہ کے شہر دارالسلام میں ایک کارخانہ مزدور۔

پائیدار ترقی کے اہداف کو خطرہ

آئی ایل او کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ قیمتیں اجرتوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ایسے میں رہن سہن کے اخراجات کا بحران مزید لوگوں کو غربت میں دھکیل سکتا ہے۔ یہ رحجان کووڈ۔10 بحران کے دوران آمدنی میں ہونے والی نمایاں کمی کے علاوہ ہے جس نے بہت سے ممالک میں کم آمدنی والے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔

آئی ایل او کی عہدیدار نے کہا کہ آج کل قریباً 214 ملین کارکن انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ کارکن روزانہ 1.90 ڈالر کماتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران غربت میں کمی لانے کے لیے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے تاہم 'ایسی بہت سی علامات' کورونا وائرس اور اس وقت جاری معاشی بحران کے باعث منظر سے غائب ہو گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اسی لیے 2030 تک ہر طرح کی غربت کے خاتمے کا انتہائی پُرعزم ہدف حاصل ہونے کا امکان کم ہے۔''

رپورٹ میں 2022 کے دوران دنیا بھر میں نوکریوں میں 473 ملین کمی کا اندازہ بھی لگایا گیا ہے۔

یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں تقریباً 33 ملین زیادہ ہے اور یہ ان لوگوں کی تعداد ہے جو بیروزگار ہیں جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو روزگار کے متلاشی ہیں لیکن متحرک طور سے نوکری نہیں ڈھونڈ رہے جس کی وجہ نوکری نہ ملنے کے باعث ان کی حوصلہ شکنی یا اہلخانہ کی نگہداشت کی ذمہ داریاں نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔

خواتین نظرانداز

مینوئلا ٹومئے نے واضح کیا کہ صںفی تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پر نوکریوں میں اضافے کی غیرمساوی صورتحال بدستور تشویش کا باعث ہے۔

افرادی قوت میں شمولیت، اجرتوں اور سماجی تحفظ کے حوالے سے سنگین صںفی خلا بدستور موجود ہیں۔ 290 ملین نوجوان نوکریوں، تعلیم یا تربیت سے محروم ہیں اور ان میں نوجوان خواتین کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔''

البانیہ کی ایک فیکٹری میں خواتین کارکن مصروف عمل۔
© ILO/Marcel Crozet
البانیہ کی ایک فیکٹری میں خواتین کارکن مصروف عمل۔