انسانی کہانیاں عالمی تناظر
اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے نائب خصوصی نمائندے مارکوس پوٹزیل کابل میں یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انٹرویو: افغانستان کو تنہائی سے نکالنے اور دنیا سے جوڑنے کی ضرورت

UN News / David Mottershead
اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے نائب خصوصی نمائندے مارکوس پوٹزیل کابل میں یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انٹرویو: افغانستان کو تنہائی سے نکالنے اور دنیا سے جوڑنے کی ضرورت

امن اور سلامتی

اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے تو افغانستان فی الواقع باقی دنیا سے الگ ہو گیا اور انسانی حقوق کو مزید محدود کرنے کے لیے حکام کی جانب سے لیے گئے فیصلوں نے ملک کی تنہائی مزید بڑھا دی۔

جب طالبان کی واپسی کے حوالے سے شکوک و شبہات کی موجودگی میں ملک کے لیے عالمی امداد بند ہو گئی تو تب سے دنیا اقوام متحدہ کے ذریعے ہی افغانستان کی صورتحال سے آگاہ ہو رہی ہے اور وہی اس ملک اور دنیا کے مابین رابطے کا ذریعہ ہے۔

یو این نیوز نے حالیہ دنوں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جا کر مزید جاننے کی کوشش کی کہ اقوام متحدہ کا دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) منشیات سے متاثرہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل اور کڑے بوجھ تلے دبے منشیات کے علاج کے مراکز کی مدد کرنے کے لیے کیا کر رہا ہے۔ 

اس دوران ہم نے ملک میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے نائب خصوصی نمائندے مارکوس پوٹزیل کے ساتھ بھی بات چیت کی۔

اس خصوصی انٹرویو میں پوٹزیل نے افغانستان میں منشیات کے استعمال اور اس کی سمگلنگ نیز ملک میں بنیادی حقوق خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بحالی اور ان کے تحفظ کے لیے مشن کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے انتہائی پیچیدہ ماحول میں رابطہ سازی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار کو واضح کیا جہاں ضروریات مسائل جتنی ہی بڑی ہیں۔

انہوں نے ملکی حکام کے ساتھ کئی شعبوں میں اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے یو این نیوز کو بتایا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے وسیع تر انسانی حقوق کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور خواتین کو معاشرتی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکنے کے احکامات جلد از جلد واپس لیے جانے چاہئیں۔ 

وضاحت اور اختصار کی خاطر اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔

جلال آباد کے گورنر کی رہائش گاہ کے باہر افغانستان کے موجودہ حکمران طالبان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔
UN News / Ezzat El-Ferri
جلال آباد کے گورنر کی رہائش گاہ کے باہر افغانستان کے موجودہ حکمران طالبان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

مارکوس پوٹزیل: افغانستان اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ہم نے حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے پوست کی کاشت، پیداوار اور اس کی سمگلنگ پر پابندی کا مشاہدہ کیا۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی ابتدائی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں پوست کی کاشت میں کمی آئی ہے جس کی ہم ستائش کرتے ہیں۔ 

ہم نے منشیات سے بحالی کے مراکز کی حالت بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ ملکی حکام ان مراکز کو ادویات، خوراک اور کپڑوں کی فراہمی کے لیے ملکی بجٹ میں مزید رقم مختص کر سکتے ہیں۔ تاہم میں عالمی برادری سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی مزید افغانستان کی مزید مدد کرے۔ ہم خطے میں ایسے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں جو منشیات سے بحالی کے معاملے پر ملکی حکام کی واقعتاً مدد کرنا چاہتے ہیں۔ 

روزگار کے معاملے بھی عالمی برادری کو افغانستان کی مزید مدد کرنی چاہیے کیونکہ اس میں افغانوں کے ساتھ مغربی عطیہ دہندہ اور علاقائی ممالک کا بھی مفاد ہے کیونکہ یہ سب منشیات کے استعمال اور اس کی سمگلنگ کے مسئلے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 

یوناما افغانستان میں سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹ رہا ہے اور ہم منشیات کے استعمال اور اس کی سمگلنگ کو روکنے اور لوگوں کو متبادل روزگار کے ذرائع مہیا کرنے کے معاملے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

یو این نیوز: آپ نے افغانستان میں اپنے کام کی انجام دہی اور ایسے حکام کے ساتھ معاملہ کرنے میں کیسے توازن پیدا کیا ہے جنہیں بہت سے لوگ غیرقانونی گردانتے ہیں؟ 

مارک پوٹزیل: یہاں ہماری سرگرمی کی بنیاد وہ ذمہ داری ہے جو سلامتی کونسل نے ہمیں سونپی ہے اور یہی ملک کے موجودہ حکمرانوں سمیت تمام سیاسی لوگوں سے بات کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ 

ہمیں زمینی حقائق کا سامنا کرنا ہے۔ ملک کے تقریباً تمام حصے پر طالبان کا تسلط ہے۔ یہ طالبان کے لیے ملک کو مستحکم اور پُرامن بنانے کا موقع ہے۔ یہ ایک ذمہ داری بھی ہے کیونکہ انہیں لوگوں کو خدمات مہیا کرنا ہیں۔ انہیں اچھی اور قانون کی حکمرانی مہیا کرنی ہے۔ یہیں ہم کمی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ حکام کا ہمارے ساتھ بات کرنے میں مفاد ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے اور باقی دنیا کے مابین رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ ہم افغانستان سے بیرونی دنیا میں پیغام پہنچانے میں مدد دے سکتے ہیں اور دنیا کا پیغام بھی افغانستان کو پہنچاتے ہیں۔ 

ملک بھر میں ہمارے 11 فیلڈ افسر کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ ہم یہاں موجود ہیں۔ دنیا ہمارے ذریعے افغانستان کے حالات سے آگاہی حاصل کرتی ہے۔ ہم دنیا کو افغانستان کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ملکی حکام کے ساتھ بات کر کے تعاون بڑھانے اور انہیں اس تنہائی سے نکالنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ 

ہمارے خیال میں افغانستان کو تنہا کر کے اس کا مسقبل بہتر نہیں بنایا جا سکتا یا کم از کم یہ اس مقصد کے لئے کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے۔

ہرات میں یونیسف کی مدد سے کام کرنے والا ایک سکول۔
UNICEF / Mark Naftalin
ہرات میں یونیسف کی مدد سے کام کرنے والا ایک سکول۔

یو این نیوز: خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ملکی ترقی کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں ہم نے یہ بات ایسے لوگوں سے بھی سنی ہے جو طالبان کے زیراہتمام چلائے جانے والے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ اس جیسے مسئلے پر کوئی درمیانی راہ کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ 

مارکوس پوٹزیل: اس مسئلے پر کوئی درمیانی راہ نہیں نکالی جائے گی۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جو لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد سکول جانے یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاملے میں کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔ یہ سودے بازی کی چیز نہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل ہونا ہو گا۔ 

مجھے یقین ہے کہ طالبان سمیت افغانستان کی بیشتر آبادی ان احکامات کے خلاف ہے۔ وہ لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ مجھے ملکی حکام میں سے کوئی ایک بھی ایسا عہدیدار نہیں ملا جو لڑکیوں کو سکول یا یونیورسٹی جانے سے روکنے کے احکامات کا حامی ہو۔ 

یہ احکامات معاشی ترقی پر فیصلہ کن طور سے اثرانداز ہوں گے۔ لڑکیوں کی بات سنی جانی چاہیے۔ خواتین کو معاشرے میں بات کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ ملکی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ جتنا جلد ہو سکے یہ پابندی واپس لیں۔ بصورت دیگر افغانستان کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خراب رہیں گے۔ 

یو این نیوز: اگر افغانوں کی بڑی اکثریت اس پابندی سے اتفاق نہیں کرتی اور طالبان کے لوگ بھی اس کے مخالف ہیں تو پھر طالبان حکام اس پر عملدرآمد کیوں کیے جا رہے ہیں؟ 

مارکوس پوٹزیل: قندھار کے امیر اور ان کے قریبی حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ان احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے مذہبی دلائل اور ثقافتی بیانیوں کا مجموعہ پیش کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک مذہبی دلیل کی بات ہے تو دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں کہیں بھی ایسی پابندی وجود نہیں رکھتی۔ دنیا میں کسی بھی اور ملک میں یہ پابندی نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے "اقراء" جس کا مطلب ہے "پڑھو"۔ قرآن تمام مردوخواتین، لڑکوں اور لڑکیوں کی پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ 

جہاں تک ثقافت کی بات ہے تو اس ملک میں لڑکیوں اور لڑکوں کے پڑھنے لکھنے کی روایت رہی ہے۔ جمہوری حکومت میں ہر لڑکی سکول نہیں جاتی تھی۔ دور دراز علاقوں میں انہیں اس کا موقع ہی نہیں ملتا لیکن انہیں آئینی اور قانونی اعتبار سے تعلیم کے حصول کا حق ضرور حاصل تھا جبکہ اب یہ دونوں ہی وجود نہیں رکھتے۔ 

یو این نیوز: کیا آپ کو یہ پیغام طالبان تک پہنچانے کے لئے دیگر اسلامی ممالک سے بھی کوئی تعاون ملا؟ 

مارکوس پوٹزیل: جی ہاں، یقیناً، اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا ایک وفد یہاں آیا اور اس نے ملک کے فیصلہ سازوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ تعلیم اسلام کا جزو ہے۔ تاحال تو اس پر عمل نہیں ہوا لیکن وہ لوگ واپس آئیں گے۔ یہ سعودی عرب، پاکستان، قطر اور انڈونیشیا سمیت مسلمان ممالک کے عالم ہیں۔ ان کے ابتدائی دورے میں ایک خاتون بھی وفد کا حصہ تھی۔ اسلامی ممالک کو غالباً طالبان تک بہتر رسائی ہے اور وہ اپنی بات سے انہیں بہتر طور سے قائل کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آخر میں ہماری تمام کوششیں رنگ لائیں گی۔

جلال آباد اور کابل کو ملانے والا پہاڑی راستہ۔
UN News/Ezzat El-Ferri
جلال آباد اور کابل کو ملانے والا پہاڑی راستہ۔

یو این نیوز: سیاسی تبدیلی سے پہلے طالبان ملک میں اقوام متحدہ کے کام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ اگست 2021 کے بعد اب افغانستان میں اقوام متحدہ کے کام کو کون سا بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ 

مارک پوٹزیل: سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یقیناً داعش سب سے بڑا خطرہ ہے جسے داعش صوبہ خراسان بھی کہا جاتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کے لیے حالات زیادہ مشکل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ افغان خواتین کو غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سے معاملات واقعتاً پیچیدہ رخ اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ ہمارا اپنے کام میں خواتین پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ خواتین کے بغیر امدادی تنظیموں کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں خواتین تک پہنچنے کے لیے خواتین کی ضرورت ہے۔ 

اس ملک میں ہزاروں گھرانوں کی سربراہ خواتین ہیں کیونکہ خاندانوں میں بہت سے مرد جنگوں میں جانیں گنوا چکے ہیں۔ خواتین کے بغیر این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ادارے درست طور سے کام نہیں کر سکتے اور اس طرح بہت کم لوگوں کو مدد مل پاتی ہے۔ 

یو این نیوز: افغانستان کے حکمرانوں کو آپ کیا پیغام دیں گے؟ 

مارکوس پوٹزیل: میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد بھی سکول جانے کی اجازت دیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت دیں۔ انہیں خواتین کو بین الاقوامی این جی اوز، قومی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے کام کرنے دینا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ خواتین کو سماجی زندگی میں شرکت کا موقع دیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میں تصور کر سکتا ہوں کہ افغانستان دوبارہ عالمی برادری کا حصہ بن جائے گا اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان بھی افغانستان کے ساتھ اپنے روابط بحال کرنے اور غالباً انہیں مضبوط بنانے پر غور کریں گے۔ افغانستان کو عالمی مدد کی ضرورت ہے۔ ہم اقوام متحدہ کی حیثیت سے اسے مدد دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ترقی کرے۔