انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: جغرافیائی سیاسی تقسیم اور ماحولیاتی بحران کے خاتمے کے لیے سمت درست کریں، گوتیرش

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یوکرین سے اناج لانے والے بحری جہاز ’Brave Commander‘ کو دیکھنے ترکی پہنچے

اگر مجھے دنیا کے حالات اور امن و سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ تعلیم ہو گی

UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یوکرین سے اناج لانے والے بحری جہاز ’Brave Commander‘ کو دیکھنے ترکی پہنچے

انٹرویو: جغرافیائی سیاسی تقسیم اور ماحولیاتی بحران کے خاتمے کے لیے سمت درست کریں، گوتیرش

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے دنیا کو موسمیاتی تبدیلی اور جغرافیائی سیاسی تقسیم سے لے کر بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور جنگوں تک بیک وقت درپیش بہت سے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے حل کے لیے عالمگیر یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے کہا ہے۔

جنرل اسمبلی کے سالانہ اعلیٰ سطحی ہفتے سے پہلے یو این نیوز کے ساتھ بہت سے موضوعات پر بات کرتے ہوئے گوتیرش کا کہنا تھا کہ ''میرا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہمیں باہمی تعاون اور بات چیت کی ضرورت ہے جبکہ حالیہ خوفناک ارضی سیاسی تقسیم اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں اپنی روش  بدلنی ہوگی۔''

اقوام متحدہ کے سربراہ سیلاب زدہ پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے وہاں کا دورہ کر کے حال ہی میں واپس آئے ہیں جہاں انہوں نے تواتر سے کہا کہ ہمیں ناصرف ''موسمیاتی تباہی'' کے خلاف فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں ان ممالک کو مزید مدد بھی مہیا کرنا ہو گی جو موسمیاتی مسئلے کے سب سے بڑے متاثرین ہیں لیکن یہ مسئلہ پیدا کرنے میں ان کا کردار بہت کم ہے۔

Tweet URL

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ ''ہمیں ناصرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک کی مدد میں اضافہ کرنا ہے بلکہ انہیں شدید موسمی حالات کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے اور پائیدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی مدد دینا ہے جس کی انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جھیلنے کے لیے ضرورت ہے جو انہیں پہلے ہی تباہ کیے دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ اثرات ایسے ممالک میں نظر آتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کردار کچھ خاص نہیں ہے۔''

جغرافیائی سیاسی حوالے سے سیکرٹری جنرل نے کڑے مسائل پر واضح تبدیلی ممکن بنانے کے لیے مخلصانہ اور معاملہ فہم سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ ان مسائل میں یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والی عالمگیر غذائی قلت بھی شامل ہے۔

انہوں ںے اقوام متحدہ کی ثالثی میں بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام کو اس کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''اس اقدام نے ثابت کیا ہے کہ باتدبیر حکمت عملی اب بھی وہ سب کچھ حاصل کر سکتی ہے جو بلند آہنگ باتوں پر مبنی سفارت کاری نہیں کرتی۔ یہ معاہدہ ممکن نہ ہوتا اگر ہم اسے ہوشمندی سے انجام دینے کے لیے مسلسل کام نہ کرتے۔ اسی طرح اگر ہم نے ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز نہ کیا ہوتا جن کے نتیجے میں دونوں فریقین آپس میں لڑنا شروع کر دیں تو تب بھی ہمیں کامیابی نہ ملتی۔''

بات کو واضح کرنے اور اس کی طوالت کم کرنے کے لیے انٹرویوکی تدوین کی گئی ہے۔

یو این نیوز: آپ حال ہی میں پاکستان سے واپس آئے ہیں جہاں آپ نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جنم لینے والی تباہی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اب ہمیں صومالیہ میں خشک سالی اور قحط کے ممکنہ خطرے پر تشویش ہے۔ آپ ان لوگوں سے کیا کہنا چاہیں گے جو اب بھی موسمیاتی تبدیلی کو حقیقی نہیں سمجھتے۔ کیا ہم خود کو خطرے میں ڈال کر اسے نظرانداز نہیں کرتے؟

انتونیو گوتیرش: موسمیاتی تبدیلی ہمارے دور کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ مجھے اس بارے میں بہت زیادہ تشویش ہے کیونکہ یوکرین میں جاری جنگ اور متعدد دیگر واقعات کے ہوتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں بہت سے فیصلہ سازوں کی ترجیحات میں دکھائی نہیں دیتی اور اس طرح گویا ہم خودکشی کر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم معدنی ایندھن کا استعمال ایک مرتبہ پھر عام ہوتا دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ معدنی ایندھن فطرت کے خلاف اس بڑھتی ہوئی جنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے جو ہم اپنی پوری تاریخ میں لڑتے چلے آئے ہیں۔

اِس وقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے اگرچہ ہمیں 2030 تک اس اخراج میں 45 فیصد کمی لانا چاہیے لیکن اس کے بجائے ہمیں 2030 تک اس میں 14 فیصد اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اس رحجان کو واپس موڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ایک تباہ کن صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمارے پاس واپس پلٹنے کےلیے زیادہ وقت نہیں ہے۔

اسی دوران جب ہم پاکستان میں آنے والی تباہی کی شدت کو دیکھیں تو وہاں سیلاب میں زیرآب آنے والا علاقہ میرے اپنے ملک پرتگال سے تین گنا زیادہ ہے۔ ہمیں ناصرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے معاملے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں انہیں موسمیاتی تبدیلی کے مقابل مضبوط بنانے اور ایسے پائیدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد دینے کی بھی ضرورت ہے جس سے یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے نمٹ سکیں جو پہلے ہی انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ اثرات ایسے ممالک میں دکھائی دیتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔''

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے سیلاب سے متاثرہ پاکستان سے یکجہتی کے اظہار کے لیے کیے گئے دورے کے دوران فضاء سے لی گئی ایک تصویر
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے سیلاب سے متاثرہ پاکستان سے یکجہتی کے اظہار کے لیے کیے گئے دورے کے دوران فضاء سے لی گئی ایک تصویر

یو این نیوز: ہر سال ہم جنرل اسمبلی کے نئے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں جسے عام طور پر اقوام متحدہ کے گزشتہ سال کی جھلکیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سال جنرل اسمبلی میں آپ کی توجہ کس چیز پر ہے۔ یہ وباء کے بعد پہلا اجلاس ہے جس میں ہم اثالتاً شرکت کی جارہی ہے اور یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب یورپ میں جاری ایک بڑی جنگ دیگر عالمگیر ترجیحات سے توجہ ہٹا رہی ہے۔

انتونیو گوتیرش: میرا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہم آج جس جغرافیائی سیاسی تقسیم کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ خوفناک ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، جب دنیا دیگر وباؤں کے امکانات کا سامنا کر رہی ہے اور کووڈ۔19 پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا اور جب دنیا کو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین اور ممالک کے اندر اونچے درجے کی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ دنیا کو ان تمام پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اتحاد چاہیے، ہمیں تعاون چاہیے، ہمیں مکالمہ چاہیے جبکہ موجودہ ارضی سیاسی تقسیم ایسا ہونے نہیں دے رہی۔ ہمیں اپنا راستہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یوکرین کے دورہ کے دوران اِرپن میں
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یوکرین کے دورہ کے دوران اِرپن میں

یو این نیوز: یوکرین میں جنگ نے مہاجرت کی تاریخ کا ایک تیزتر اور بہت بڑا بحران پیدا کیا ہے۔ کیئو (یوکرین کا دارالحکومت) پر اس وقت بھی بمباری کی گئی جب آپ وہاں کا دورہ کر رہے تھے۔ یہ بحران ان بہت سے دیگر بحرانوں سے کس طرح مختلف ہے جو آپ ہائی کمشنر کی حیثیت سے اور بعدازاں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر دیکھ چکے ہیں؟

انتونیو گوتیرش: میں نے جن بیشتر بحرانوں کا مشاہدہ کیا ہے وہ ترقی پذیر ممالک میں تھے جو مقابلتاً غریب ملک ہیں اور اگر کہیں کوئی بیرونی مداخلت بھی ہوئی تو ایسے زیادہ تر بحرانوں کی نوعیت داخلی تھی۔ ان بحرانوں نے اندرون ملک خانہ جنگی یا دہشت گردی کی سرگرمیوں کی صورت اختیار کر لی۔ اب ہم ایک بڑی طاقت اور یوکرین کے درمیان جنگ دیکھ رہے ہیں جو ایک جدید ملک ہے۔ ہم تباہی کی شدت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایسے حالات میں ممکن نہیں جہاں اسلحے اور فوجی صلاحیت کی نوعیت اس سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہے۔

لہٰذا، درحقیقت یہ دو ریاستوں کے مابین جنگ ہے جو ایک ریاست پر دوسری ریاست کے حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی اور اس میں جس درجے کا اسلحہ اور فوج اکٹھی کی گئی اس کی حالیہ عرصہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب ہم حالیہ تاریخ میں مہاجرین اور بے گھر لوگوں کی تیزتر حرکت دیکھ رہے ہیں جس کے انسانی نتائج خوفناک ہیں۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نائجیریا کے علاقے بورنو میں مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نائجیریا کے علاقے بورنو میں مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے

یو این نیوز: بہت سے ممالک میں تعلیم کو نقصان ہو رہا ہے اور ایسے میں آپ تعلیم میں تبدیلی لانے کے معاملے پر ایک بڑے اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں۔ آپ معاشی گراوٹ کے خلاف اقدامات کرنا چاہتے ہیں جس کے دوران پائیدار ترقی میں بڑے پیمانے پر تنزلی دیکھی گئی ہے۔ آپ کے خیال میں بڑے ارضی سیاسی تناؤ کے ہوتے ہوئے ان محاذوں پر پیشرفت کی بہترین صورت کیا ہے؟

انتونیو گوتیرش: اگر مجھے دنیا کے حالات اور امن و سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ تعلیم ہو گی۔ اگر مجھے موسمیاتی تبدیلی کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت بڑھانے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات بہتر بنانے کے لیے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ تعلیم ہی ہو گی۔ جب میں کسی ایسی چیز کو دیکھوں جو دنیا میں عدم مساوات کو کم کر سکے تو وہ تعلیم ہو گی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنگوں سے لے کر موسمیاتی تبدیلی اور وباؤں تک دنیا کی موجودہ غیرمعمولی صورتحال میں تعلیمی بجٹ کم کیے جا رہے ہیں۔

اسی لیے تعلیم کو تبدیل کرنے سے متعلق کانفرنس پوری بین الاقوامی برادری کو اکٹھا کرنے کا موقع ہے تاکہ ممالک یہ بات سمجھیں کہ انہیں تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور ترقی یافتہ ممالک کو یہ سمجھنا ہے کہ انہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر ترقی پذیر ممالک کو تعلیم پر سرمایہ کاری کے قابل بنانے کے لیے ان کی مدد میں اضافہ کرنا ہے۔

ہم نے گورڈن براؤن کے ساتھ مل کر تعلیم کے لیے 'بین الاقوامی مالیاتی سہولت' کا اقدام شروع کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ تمام عطیہ دہندگان اس سہولت کے لیے فوری مالی معاونت کریں گے تاکہ دنیا میں انتہائی کمزور لوگوں کی حالت تبدیل کی جا سکے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اوڈیسہ میں بحری  جہاز پر اناج لادتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اوڈیسہ میں بحری جہاز پر اناج لادتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

یو این نیوز: بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام کے تحت پہلے ہی یوکرین سے تین ملین ٹن خوراک دنیا بھر میں روانہ کی جا چکی ہے جس سے خوراک کے بحران پر قابو پانے اور زندگیاں بچانے میں مدد مل رہی ہے۔ اس کامیاب اقدام کے بعض ضروری أجزاء کیا ہیں؟ آپ کیسے یہ امید رکھتے ہیں کہ اس فارمولے کا اطلاق دیگر پیچیدہ حالات پر بھی ہو سکتا ہے؟

انتونیو گوتیرش: یہ ثابت ہو چکا ہے کہ معاملہ فہمی اب بھی وہ سب کچھ حاصل کر سکتی ہے جو بلند آہنگ باتوں پر مبنی سفارت کاری نہیں کرتی۔ یہ معاہدہ ممکن نہ ہوتا اگر ہم اسے ہوشمندی سے انجام دینے کے لیے مسلسل کام نہ کرتے۔ اسی طرح اگر ہم نے ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز نہ کیا ہوتا جن کے نتیجے میں دونوں فریقین آپس میں لڑنا شروع کر دیں تو تب بھی ہمیں کامیابی نہ ملتی۔ میں کہوں گا کہ یہ دنیا میں بہت سے دیگر بحرانوں کا حل ھی ہے۔ آئیے آج کی دنیا میں بحرانوں کے حل کے لیے ہوشمندانہ سفارت کاری کی اہمیت کو بحال کریں۔

یو این نیوز: انسانی حقوق اقوام متحدہ کے کام کا ایک اہم ستون ہیں۔ آپ نے نفرت کے بڑھتے ہوئے اظہار، یہود مخالفت اور تنگ نظر قوم پرستی سے لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور دوسری جانب کون سی بات آپ کو امید دیتی ہے؟

انتونیو گوتیرش: یہ چیزیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں لیکن اب سوشل میڈیا اور دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تمام ذرائع کی بدولت بہت زیادہ پھیل گئی ہیں۔

دوسری جانب جب ممالک کو اپنے مسائل کے حل میں مشکلات پیش آتی ہیں تو قوم پرستی اور یہودیوں سے نفرت اور غیرملکیوں کو ہدف بنانے جیسی چیزوں کی آڑ لی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ چند ایسی چیزیں ہیں جو اب مزید تواتر سے سامنے آنے لگی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق کے ذریعے معاشروں اور ممالک کو متحد ہونا چاہیے۔ نسل پرستی اور یہویوں کی مخالفت اس نفرت کا مطلق ناقابل قبول اظہار ہیں جسے ہمیں دنیا سے ختم کرنا ہے۔

Soundcloud

یو این نیوز: طویل عرصہ سے آپ اس حقیقت پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ دنیا مزید تقسیم ہو رہی ہے جسے آپ نے 'وسیع شکستگی' قرار دیا ہے۔ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے یہ واضح ہے کہ یہ سیاسی حقیقت آپ کے کام کو مزید مشکل بنادیتی ہے۔ آپ دنیا کو متحد کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

انتونیو گوتیرش: میرے پاس معجزوں کی طاقت نہیں ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اچھے دفاتر اور ثالثی سمیت اپنی دسترس میں موجود ذرائع سے ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ کام لینے کا عزم کریں اور دنیا کو یہ سمجھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں کہ ہمیں درپیش بہت بڑے مسائل پر یکجہتی، تعاون اور اتحاد کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔

یو این نیوز: گزشتہ برس کووڈ۔19 بظاہر سب سے بڑا عالمی بحران تھا جس سے ہم سب گزرے اور اس نے جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کی کارروائیوں کو بھی متاثر کیا۔ صحت عامہ کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کے لیے حکومتوں اور اقوام متحدہ کو کیا کرنا چاہیے؟

انتونیو گوتیرش: ویکسین کی مساوی تقسیم اور دستیابی کے مسائل جہاں اب بھی موجود ہوں وہاں انہیں حل کرنا بہت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کا نظام اس کے لیے متحرک ہے۔ دوسری بات یہ کہ کووڈ۔19 میں لاک ڈاؤن، سیاحت کے خاتمے اور اس وباء کے بہت سے دیگر پہلوؤں سے متاثر ہونے والے ممالک کے لیے قرضوں کی ادائیگی میں آسانی کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ یہ ممالک آج مایوس کن صورتحال اور بڑی مصیبت سے دوار ہیں جن کے پاس مالیاتی گنجائش نہیں ہے اور ان پر بھاری قرض چڑھ چکا ہے۔ ایسے ترقی پذیر ممالک کو لیکویڈٹی کی فراہمی کا طریق کار ہونا چاہیے تاکہ وہ معاشی طور پر خود کو بحال کر سکیں۔ ان میں درمیانے درجے کی آمدنی والی ممالک بھی شامل ہیں۔

جب ہم نے یہ دیکھا کہ امیر ممالک اپنی معیشتوں کا پہیہ دوبارہ چلانے کے لیے اربوں کھربوں مالیت کے نوٹ چھاپ سکتے ہیں تو بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک ایسا نہ کر سکے، ان کی کرنسی قدر کھو بیٹھتی، لہٰذا بین الاقوامی یکجہتی بہرصورت دوبارہ قائم ہونی چاہیے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے
UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے

یو این نیوز: جیسا کہ آپ اپنی دوسری مدت کا آغاز کر چکے ہیں تو آپ اقوام متحدہ کو اس کے مقصد کے مطابق بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیں گے؟ آپ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کون سی سب سے بڑی اصلاح کرنا چاہیں گے؟

انتونیو گوتیرش: ہم نے اپنا مشترکہ ایجنڈا شروع کیا ہے جو کہ منصوبوں، تصورات اور تجاویز کا ایک سلسلہ ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کو پہلے سے زیادہ مؤثر بنانا اور دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے کثیرفریقی طریقہ کار کی تشکیل نو کرنا ہے۔ میرا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہمارے مشترکہ ایجنڈے کو تیار اور اختیار کریں اور اسے 2030 کے ایجنڈے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس جی ڈی) کی تکمیل کے بڑے ذریعے کا حصہ بنائیں تاکہ ہم دنیا میں مزید امن، مزید ترقی، مزید انصاف اور انسانی حقوق کے موثر احترام کو یقینی بنا سکیں۔

یو این نیوز: صنفی مساوات اور نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلنے پر آپ کے اصرار کو دیکھا جائے تو آپ ایسا کیا کریں گے کہ آپ کے بعد بھی یہ چیزیں جاری رہیں؟ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ کوئی نوجوان خاتون آپ کی جانشین ہو؟

انتونیو گوتیرش: سب سے پہلی بات یہ کہ ہم اقوام متحدہ کی اعلیٰ انتظامیہ میں یہ مساوات قائم کر چکے ہیں جہاں تقریباً 200 اعلیٰ سطحی رہنما خواتین ہیں۔ ہر ملک میں اقوام متحدہ کے رابطہ کاروں میں بھی یہ مساوات پائی جاتی ہے۔ اب ہم 2028 میں اقوام متحدہ میں ہر سطح کے کام میں صنفی مساوات کے مقصد کے حصول کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

دوسری جانب ہم اقوام متحدہ کی تمام پالیسیوں، اس کے ہر ادارے کے ہر کام اور اپنے ہر کام میں صنفی مساوات قائم کر رہے ہیں۔ جہاں تک سیکرٹری جنرل کے عہدے کا سوال ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں، میں خاتون نہیں ہوں۔ تاہم میں یقیناً اس امکان میں بہت دلچسپی رکھتا اور اس کی حمایت کرتا ہوں کہ خواتین کو نہ صرف اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل کے طور پر بلکہ دنیا کے بااثر ترین ممالک کی رہنماؤں کی حیثیت سے بھی منتخب کیا جا سکتا ہے۔