انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: پائیدار ترقی کے حصول میں قائدانہ عزم کی ضرورت، امینہ محمد

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد چاڈ میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچوں سے مل رہی ہیں۔
© Annour Halal
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد چاڈ میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچوں سے مل رہی ہیں۔

انٹرویو: پائیدار ترقی کے حصول میں قائدانہ عزم کی ضرورت، امینہ محمد

پائیدار ترقی کے اہداف

پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی مقررہ مدت ختم ہونے میں صرف چھ سال باقی ہیں جبکہ اب تک 17 فیصد ہدف ہی قابل رسائی نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر شعبے میں قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔

یو این نیوز کی مائرہ لوپز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ایس ڈی جی' کے حصول کی جانب پیش رفت تیز کرنے کے لیے چھ شعبوں میں اہم تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ان میں خوراک کے نظام، توانائی تک رسائی اور اس کے حصول کی استطاعت، ڈیجیٹل ربط، تعلیم و روزگار اور موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودگی شامل ہیں۔

انہوں نے یہ بات چیت اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں جاری اعلیٰ سطحی سیاسی فورم (ایچ ایل پی ایف) کے دوران ایک خصوصی اجلاس سے قبل کی جس کا موضوع 'ایس ڈی جی کے لیے وعدوں کا پاس: تیزرفتار پیش رفت کا لائحہ عمل' ہو گا۔

وضاحت اور اختصار کی خاطر اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔

یو این نیوز: عالمی برادری رواں ہفتے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم میں شرکت کر رہی ہے۔ مقررہ مدت میں ایس ڈی جی کے حصول کے لیے دنیا کے پاس اب بھی چھ سال باقی ہیں۔ اس حوالے سے آپ عالمی رہنماؤں کو کیا پیغام دیں گی؟

امینہ محمد: میں انہیں یہ کہوں گی کہ وہ حقیقی رہنمائی کریں۔ لوگوں کے لیے، اپنی ضروریات اور ایس ڈی جی ایجنڈے سے متعلق کیے گئے اپنے وعدوں کے حوالے سے رہنما کردار ادا کریں۔ کرہ ارض کی خاطر اور عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کے معاملے میں رہنمائی کریں۔

انہیں چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق چلیں اور اس ادراک کے ساتھ یہاں سے واپس جائیں کہ اقوام متحدہ ہی ایسی جگہ ہے جہاں آپ دنیا بھر کے لوگوں کی آوازوں کو سن سکتے ہیں اور ان کی خواہشات کو جان سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کو واپس جا کر درست سمت میں کام کرنے کے لیے درکار توانائی و تحریک ملنی چاہیے۔

نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد یو این نیوز کو انٹرویو دے رہی ہیں۔
UN Photo/Manuel Elías
نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد یو این نیوز کو انٹرویو دے رہی ہیں۔

یو این نیوز: اقوام متحدہ کا نظام ایس ڈی جی کے حصول سے متعلق اقدامات کی رفتار میں تیزی لانے کے لیے چھ اہم شعبوں میں تبدیلیوں کے لیے کام کر رہا ہے۔ کیا آپ ہمیں ان شعبوں کے بارے میں کچھ مزید بتا سکتی ہیں اور یہ کہ ان میں کسی کو پیچھے رہنے نہ دینا اس قدر اہم کیوں ہے؟

امینہ محمد: گزشتہ سال ایس ڈی جی کانفرنس میں جب رکن ممالک کو خبردار کیا گیا کہ ان اہداف کے حصول کی جانب دنیا کی پیش رفت بری طرح بے سمت ہے تو انہیں نے اصلاح احوال کی ضرورت کا ادراک ہوا۔ اب تک 15 یا 17 فیصد اہداف ہی قابل رسائی دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال کو کم از کم حد تک بھی اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ ہمیں یہ سوچنا تھا کہ ان مقاصد تک پہنچنے کے لیے کون سی جگہ پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ، ہم نے ان چھ شعبوں کی نشاندہی کی جہاں ہمیں خاص طور پر کام کرنا ہے۔

اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ دنیا کو کہاں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ نجی شعبے کی ضرورت کہاں ہو گی جبکہ سرکاری شعبہ پہلے ہی کام کر رہا ہے، ہم کون سی جگہ اپنے اقدامات کو بڑھا سکتے ہیں اور اقوام متحدہ اس مقصد کے لیے ممالک کا ساتھ دینے کی غرض سے کہاں مدد مہیا کر سکتا ہے۔

ہم نظام ہائے خوراک کی بات کیوں کر رہے تھے؟ اس لیے کہ ہم نے کووڈ کے اثرات اور دنیا میں اس کے باعث آنے والے خلل کو محسوس کیا تھا۔ ہم نے نظام ہائے خوراک پر یوکرین کی جنگ کے براہ راست اثرات کو محسوس کیا۔ یقیناً، ہم نے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش بھی کی اور بہت سی زندگیوں کو تحفظ دیا۔

تاہم، میں سمجھتی ہوں کہ یہ بات واضح تھی کہ ہم مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ دوسروں پر انحصار ہمیشہ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ نہیں ہوتا۔ یہ ایسا نظام بھی ہے جو ہمیں عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف سے دور لے جاتا ہے۔

دوسرا معاملہ توانائی کے شعبے میں تبدیلی سے متعلق تھا کہ ہم دنیا میں ہر فرد تک توانائی کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ اس میں پہلی بات رسائی کی ہے، خواہ توانائی کھانا بنانے کے لیے درکار ہو یا تعلیم و صحت جیسی سرگرمیوں کے لیے اس کی ضرورت ہو۔ دنیا میں ہر فرد گرڈ سے منسلک نہیں ہے۔ ہم ایسے چھوٹے گرڈ بنا سکتے ہیں جن سے پورے کے پورے علاقوں کو بجلی میسر آئے اور خاص طور پر اگر ہم نظام ہائے خوراک کو بھی اس سے جوڑ رہے ہوں تو پھر اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تیسرا شعبہ مواصلاتی رابطوں سے متعلق ہے۔ یقیناً اب نئی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہم لوگوں کو باہم کیسے جوڑ سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر، خواتین کے لیے مالیاتی خدمات کی فراہمی کے معاملے کو دیکھا جائے تو ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دیہات سے باہر جائے بغیر دنیا سے رابطے میں ہوں۔ اس کے لیے انہیں توانائی اور مواصلاتی ربط کی ضرورت ہو گی۔

اس کے بعد، ہم نے یہ بھی سوچا کہ تعلیم کی صورتحال بھی اچھی نہیں ہے۔ یہ چوتھا شعبہ ہے جہاں تبدیلی درکار ہے۔ یہ تعلیم کو راتوں رات تبدیل کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ان کے پاس روزگار حاصل کرنے کے لیے درکار تعلیم نہیں ہے۔

آپ انہیں منڈیوں سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ نظام ہائے خوراک کے حوالے سے صلاحیتوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے اور بہتر و مزید مساوی طور سے ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ فرق ختم کیا جائے اور لوگوں کے لیے روزگار پیدا کیے جائیں۔

اس حوالے سے میرے ذہن میں دو باتیں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جن لوگوں کو مدد دی جانا ہے وہ مضبوط ہوں اور انہیں ملکی وسائل سےسماجی تحفظ دیا جائے۔ ایسی صورت میں وہ قدرے مضبوط ہو سکیں گے اور آپ یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ جب کووڈ۔19 جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہو تو لوگ اس کا مقابلہ کر سکیں۔

اگر ہم موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کی صورت میں تہرے بحران کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگا سکتے تو پھر کامیابی کا حصول مزید مشکل ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد پائیدار ترقی پر نیو یارک میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد پائیدار ترقی پر نیو یارک میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔

یو این نیوز: میں ڈیجیٹل اختراع کے معاملے پر بات کرنا چاہوں گی۔ کیا آپ اس نئی ٹیکنالوجی سے فوائد کے حصول کے بارے میں پرامید ہیں اور آپ کی رائے میں یہ فائدے کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

امینہ محمد: گزشتہ دنوں مجھے بارباڈوز میں ایک شخص سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ اس نے انٹرنیٹ سرچ انجن بنایا تھا جسے ہم آرچی کے نام سے جانتے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تمہارے خیال میں ٹیکنالوجی کا یہ نیا دور کیا ہے جس کے بارے میں تمہیں بخوبی علم ہو گا؟ اس کا کہنا تھا کہ یہ بیک وقت بہت اچھی اور بہت خوفناک چیز ہے جس کے لیے دنیا تاحال تیار نہیں ہے۔ اس کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہی حقیقت ہے۔

سیکرٹری جنرل کہہ چکے ہیں کہ 'کانفرنس برائے مستقبل' میں اس ٹیکنالوجی سے وابستہ امکانات کے حوالے سے حفاظتی اقدامات پر بھی بات ہو گی۔ اس ٹیکنالوجی سے ہمیں بہت سے خطرات بھی درپیش ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بہت سے مواقع بھی لا رہی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اس معاملے میں قواعد و ضوابط متعین کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا اس سے لاحق نقصانات سے محفوظ رہ سکے۔

اس سے ہمیں باہم مربوط دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور ہمیں اس کے انتظام کی بابت سوچنا اور قدم اٹھانا ہے کہ اس سے کیسے کام لیا جانا چاہیے اور کیا صرف الگورتھم ہی اسے چلائیں گے جو فی الوقت خواتین کے حوالے سے متعصبانہ طور سے بنائے گئے ہیں۔

میری رائے میں ایک اور بات زیادہ اہم ہے جو میں نے بارباڈوز میں اس شخص سے بھی کہی تھی کہ آیا یہ ماضی میں گھوڑا گاڑی سے احتراقی انجن کی جانب منتقلی جیسا معاملہ ہے؟ اس نے مجھے جواب دیا کہ یہ ویسا نہیں ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت معاشروں اور ہمارے انداز کار میں تبدیلی کا نام ہے۔ جب یہ ٹیکنالوجی عام ہو جائے گی تو ہم پہلے جیسے نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرے سے کہیں زیادہ مربوط ہو جائیں گے۔

یو این نیوز: ایس ڈی جی کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس وقت دنیا میں جنگیں بھی جاری ہیں اور عالمی سطح پر تناؤ کی کیفیت ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ایسے حالات میں بھی ان اہداف کے حصول کی جانب پیش رفت کو تیز کیا جا سکتا ہے؟

امینہ محمد: دراصل ہمیں قیادت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر سطح پر قیادت درکار ہے۔ یہ محض کسی ملک کی قیادت یا صدارت کا معاملہ نہیں بلکہ ہمیں کاروبار، سول سوسائٹی اور نوجوانوں سمیت ہر جگہ قائدانہ اور رہنما کردار کی ضرورت ہے۔

اچھے کی امید کے لیے اس کی خاص اہمیت ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کو دنیا کے مل بیٹھنے کی مزید مضبوط جگہ بنانا ہے تاکہ یہاں لوگوں کی آواز محض سنی ہی نہ جائے بلکہ اس پر عمل بھی ہو۔

ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد (دائیں سے دوسرے نمبر پر) یو این ہیڈکوارٹر نیو یارک میں ماحول دوست رہائشی منصوبوں کی نمائش کے موقع پر شرکاء کے ساتھ۔
UN Photo/Loey Felipe
ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد (دائیں سے دوسرے نمبر پر) یو این ہیڈکوارٹر نیو یارک میں ماحول دوست رہائشی منصوبوں کی نمائش کے موقع پر شرکاء کے ساتھ۔

اقوام متحدہ کے تمام ارکان ایک جیسے وسائل اور طاقت نہیں رکھتے لیکن سب کے پاس ایک سی آواز ضرور ہے اور ہم اس آواز کو بلند کر سکتے ہیں اور ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہمارے لوگوں کی نمائندگی بہت متنوع ہے اور اسی طرح ان کی ضروریات بھی بے حد متنوع ہیں۔

شاید میرے لیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ترقیاتی ایجنڈے، امن اور سلامتی کے لیے وسائل کیسے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، سلامتی کے لیے درکار وسائل سے مراد جنگی اخراجات نہیں بلکہ ایسے وسائل ہیں جو جنگوں کی روک تھام اور ترقی پر خرچ کیے جائیں۔

ہمارا نظام دوسری عالمی جنگ سے بحالی کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا نے سوچا کہ شاید اب انسانوں کو جنگ کی لعنت سے نجات مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت یہ سوچا گیا تھا کہ لوگوں کو اپنی زندگیوں کی تعمیرنو کے لیے وسائل تک رسائی ہونی چاہیے اور موجودہ حالات میں بھی ہماری یہی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں سبھی کو ترقی کے لیے طویل مدتی طور پر وسائل میسر ہوں۔

مجھے امید ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے اقدامات کی رفتار تیز ہو رہی ہےکیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی حدت میں تیزی سے اضافے کی صورت میں دنیا کے سر پر سنگین خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان حالات میں کوئی خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔

اس معاملے میں دنیا کے ردعمل کا دارومدار لوگوں کے اس احساس پر ہے کہ ان کی مقامی، قومی اور بین الاقوامی قیادت ان کے ساتھ کس قدر نااںصافی کر رہی ہے۔ آج دنیا باہم مربوط ہے۔ نوجوان جوش و جذبے سے معمور ہیں۔ وہ خدشات میں مبتلا ہیں کیونکہ انہیں اپنا مستقبل بہتر دکھائی نہیں دے رہا۔

اگر دہشت گردوں کی بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ایسے نہیں تھے۔ یہ ماحول ہے جو لوگوں کو الگ تھلگ کرتا ہے۔ یہ ناانصافی اور ناامیدی کا ماحول ہے جو انہیں دہشت گرد بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان لوگ دہشت گرد عناصر کا آسان شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ناانصافی سے تنگ آ کر افسوسناک طور سے نظام کو تہہ و بالا کر دینا چاہتے ہیں۔

لہٰذا، میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت دنیا کو اپنی سمت درست کرنے کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذرائع اور وسائل میسر ہیں۔ ہمارے پاس ایک بہترین لائحہ عمل اور ایس ڈی جی کے حصول کا راستہ موجود ہے۔ میرے رائے میں ہمیں صرف بیدار ہونے اور جدوجہد کے اس آخری مرحلے میں اپنی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔