انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی معیشت میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم پر گوتیرش کو تشویش

انڈیا کے شہر ممبئی کی ایک کچی بستی کا منظر۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی سے پاک صحت مند ماحول میں سانس لینا سب کا حق ہے۔
WHO/Diego Rodriguez
انڈیا کے شہر ممبئی کی ایک کچی بستی کا منظر۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی سے پاک صحت مند ماحول میں سانس لینا سب کا حق ہے۔

عالمی معیشت میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم پر گوتیرش کو تشویش

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ادارے (انرا) کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔

جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد پہنچانے کا عزم رکھتا ہے اور اس کام میں 'انرا' کو لازمی اہمیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں 'انرا' کو بدنام کرنے کی مہم سمیت بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن ادارے کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہو گا۔

Tweet URL

امداد کی فراہمی میں مشکلات

غزہ کی جنگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدار تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران غزہ میں بڑے پیمانے پر موت اور تباہی دیکھی گئی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ اس عرصہ میں جتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئیں بطور سیکرٹری جنرل کسی اور مسلح تنازع میں انہوں نے اس قدر بڑا انسانی نقصان نہیں دیکھا۔ 

سیکرٹری جنرل نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں اور مصر کے ساتھ رفح کے سرحدی راستے کو بند کیے جانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں لوگوں کو امداد مہیا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

بڑھتی ہوئی نابرابری

سیکرٹری جنرل عالمی رہنماؤں کے فورم میں شرکت کے لیے جنیوا میں آئے ہیں جس کا انعقاد اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی نے کیا ہے۔ اس فورم میں خطاب کے بعد اٹلی میں جی7 کانفرنس میں شرکت کے لیے جانے سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے عالمی معیشت میں دولت کی غیرمساوی تقسیم پر خدشات کا اظہار بھی کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ امیر ممالک کو ایسی معیشتوں کی مدد کرنی چاہیے جو صنعتی طور پر ترقی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔امیر ممالک کو ترقی پذیر ممالک سے کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے لیے انہیں تکنیکی اور مالی مدد فراہم کرنا ہو گی۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ چین کے علاوہ ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ماحول دوست توانائی پر سرمایہ کاری میں 2015 کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں نصب کیے جانے والے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کا ایک فیصد سے بھی کم افریقہ کے حصے میں آیا جبکہ یہ براعظم اس مقصد کے لیے درکار وسائل اور امکانات سے مالا مال ہے۔ 

عملی اقدامات کی ضرورت

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جی7 ممالک کو آئندہ برس ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل کی مقدار بھی بڑھانا ہو گی۔ 

فورم میں اسی پیغام کو دہراتے ہوئے 'انکٹاڈ' کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے دنیا کے بعض حصوں میں ایسی صنعتی پالیسی کے ظہورنو کا خیرمقدم کیا جس میں معاشی ترقی و تبدیلی کے حوالے سے ریاست پر انحصار کم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ 

تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا بوجھ ہے اور ان کے پاس مالی وسائل کی قلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پالیسی پر فوری طور پر مکمل عملدرآمد آسان نہیں ہو گا۔ 

انہوں نے سیکرٹری جنرل کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2019 کے بعد دنیا بھر میں تجارتی رکاوٹوں اور پابندیوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہو گیا ہے جن میں سے بیشتر کا سبب ممالک کی ارضی سیاسی مخاصمتیں ہیں جن میں ان پابندیوں کے ترقی پذیر ممالک پر اثرات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ 

عدم مساوات میں کمی کا مغالطہ

ریبیکا گرینسپین نے کہا کہ 'انکٹاڈ' کے قیام کے بعد 60 برس میں ان مسائل پر قابو پانے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک ارب سے زیادہ لوگ غربت سے نکل آئے ہیں اور اب ترقی پذیر دنیا کا عالمگیر تجارتی و معاشی سرگرمی میں اہم کردار ہے۔ 

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ مغالطہ بھی جنم لے سکتا ہے کہ اب دنیا میں لوگوں کو مساوی مواقع کی فراہمی کے حوالے سے حالات گزشتہ چھ دہائیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ناہمواری بدستور موجود ہے جس سے غریب، بے وسیلہ، امتیازی سلوک کا شکار، دیہاتی، خواتین اور نوجوان بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔