انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سال 2023 جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہوا

کانگو میں زبردستی بھرتی کیے گئے کم سن فوجی آزاد ہونے کے بعد۔
UN Photo/Sylvain Liechti
کانگو میں زبردستی بھرتی کیے گئے کم سن فوجی آزاد ہونے کے بعد۔

سال 2023 جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہوا

انسانی حقوق

گزشتہ سال جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کو حملوں، اغوا، تعلیم سے محرومی اور جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیے جانے سمیت کئی طرح کے ناقابل برداشت تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

مسلح تنازعات کی تبدیل، پیچیدہ اور شدید ہوتی نوعیت اور گنجان آبادیوں میں دھماکہ خیز مواد کے استعمال سے بچوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔جنگوں میں بچوں کے سکولوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور ان کے معالجین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بچوں اور مسلح تنازعات پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی سالانہ رپورٹ (سی اے اے سی) میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں 22,557 بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کے 32,990 واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ ان کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

بچے وسطی غزہ میں ملبے کا ڈھیر بن جانے والے اپنے گھروں کے پاس کھڑے ہیں۔
© UNRWA
بچے وسطی غزہ میں ملبے کا ڈھیر بن جانے والے اپنے گھروں کے پاس کھڑے ہیں۔

ہلاکتیں اور جنسی تشدد

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کی کھلی پامالی ہوئی۔ اس دوران 11,649 بچے ہلاک اور زخمی/معذور ہوئے جو 2022 کے مقابلے میں 35 فیصد بڑی تعداد ہے۔ ان میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 5,301 رہی اور اس طرح روزانہ اوسطاً 15 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔8,655 بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیا گیا اور 4,356 اغوا کی کارروائیوں کا ہدف بنے۔ 

بچوں کے حقوق کی سب سے زیادہ پامالی اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں، جمہوریہ کانگو، میانمار صومالیہ، نائجیریا اور سوڈان میں ہوئی۔

ان میں تقریباً 50 فیصد واقعات کے ذمہ دار مسلح گروہ اور ایسے عناصر تھے جنہیں اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ بقیہ واقعات کا ارتکاب حکومتی فوجوں نے کیا۔ ان میں بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے گولہ بارود کی زد میں آ کر بچوں کے ہلاک و زخمی ہونے کے واقعات بھی شامل ہیں۔

بچوں کے اغوا، انہیں جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کرنے اور ان پر جنسی تشدد کے زیادہ تر واقعات میں مسلح گروہ ملوث تھے۔ بیشتر بچوں کے ہلاک و زخمی ہونے، سکولوں، ہسپتالوں اور ان کے عملے پر حملوں اور بچوں کو انسانی امداد سے محروم رکھنے کی ذمہ دار سرکاری افواج تھیں۔ ہلاک و زخمی ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد دھماکہ خیز اسلحے کا نشانہ بنی۔

انسانی امداد سے محرومی

گزشتہ برس 5,205 بچوں کو انسانی امداد سے محروم رکھا گیا جو 2022 کے مقابلے میں 32 فیصد بڑی تعداد ہے۔ 

ہزاروں بچے تعلیم اور طبی خدمات سے بھی محروم رہے۔ اس دوران سکولوں، ہسپتالوں اور ان کے عملے پر 1,650 حملے کیے گئے۔

بدنامی، انتقامی کارروائی کے خوف، نقصان دہ سماجی رواج، خدمات کے فقدان، مجرموں کو حاصل کھلی چھوٹ اور تحفظ کے خدشات کے باعث بچوں پر جنسی تشدد کے تمام واقعات سامنے نہ آ سکے۔ تاہم، گزشتہ سال مجموعی طور پر ایسے 1,470 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 2022 کے مقابلے میں 25 فیصد بڑی تعداد تھی۔

سوڈان کی ریاست الجزائر میں مسلح گروہوں کے درمیان تصادم سے بھاگ کر سینر پہچنے والے بچے محفوظ ٹھکانہ ملنے کے منتظر ہیں۔
© UNICEF/Ahmed Elfatih Mohamdeen
سوڈان کی ریاست الجزائر میں مسلح گروہوں کے درمیان تصادم سے بھاگ کر سینر پہچنے والے بچے محفوظ ٹھکانہ ملنے کے منتظر ہیں۔

ممالک کی ذمہ داری

بچوں اور مسلح تنازعات پر سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے کہا ہے کہ اس رپورٹ سے دنیا کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ سیکرٹری جنرل نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو مسلح تنازعات میں تحفظ دینے کے لیے عالمگیر اتفاق رائے کی تجدید کرے۔ 

ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے لوگوں کو تحفظ دینے کی بنیادی ذمہ داری پوری کریں اور مسلح تنازعات کے حوالے سے تمام قابل اطلاق اصول و ضوابط کا احترام کریں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ دنیا بھر میں تمام متحارب فریقین کو مسلح تنازعات میں بچوں کے استعمال اور ان کے حقوق کی پامالی سے روکنے کی خاطر مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں معاونت کے لیے تیار ہے۔

امید کی کرن

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بہت سے اور بڑھتے ہوئے بحرانوں کے باوجود گزشتہ برس 10,600 سے زیادہ ایسے بچوں کو تحفظ مہیا کرنے میں کامیابی ملی جنہیں قبل ازیں افواج یا مسلح گروہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ 

سماجی ہم آہنگی، معاشی ترقی اور پائیدار امن کے وسیع تر اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ان بچوں کو دوبارہ سماج کا حصہ بنانا ضروری ہے۔

گزشتہ برس اقوام متحدہ نے متعدد ممالک میں متحارب فریقین سے رابطے کر کے بچوں کو تحفظ دینے کے اقدامات کیے۔ ان ممالک میں برکینا فاسو، کیمرون، وسطی جمہوریہ افریقہ، کولمبیا، جمہوریہ کانگو، عراق، اسرائیل، مقبوضہ فلسطینی علاقے، مالی، موزمبیق، نائجیریا، فلپائن، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، یوکرین اور یمن شامل ہیں۔ 

ان میں بعض ممالک نے مسلح تنازعات سے متاثرہ بچوں کو بہتر تحفظ مہیا کرنے کے طریقے بھی اختیار کیے۔ 

یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں بچوں اور کم سن افراد کے لیے انسانی مدد کے مرکز کا اندرونی منظر۔
© UNICEF/Aleksey Filippov
یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں بچوں اور کم سن افراد کے لیے انسانی مدد کے مرکز کا اندرونی منظر۔

کامیاب حکمت عملی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلح تنازعات کا شکار ممالک میں رابطوں، لائحہ عمل کی تیاری، صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات، یکطرفہ وعدوں اور دوطرفہ بات چیت کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالیوں میں کمی آئی۔

عراق، موزمبیق، فلپائن، جنوبی سوڈان، یوکرین اور یمن میں متحارب فریقین سے رابطوں کے نتیجے میں بچوں کی حالت میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی۔ 

ورجینیا گامبا نے مسلح تنازعات کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ان سے اور اپنے ممالک میں اقوام متحدہ سے رابطہ کر کے ایسے اقدامات کی نشاندہی اور ان پر عمل کریں جن سے بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں پر قابو پایا جا سکے۔ 

ان کا کہنا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ پائیدار امن اور دنیا کو بچوں کے لیے بہتر جگہ بنانے کی خاطر کام کیا جائے۔