انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پانچ سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو جسمانی تشدد کا سامنا، یونیسف

ایک چوتھائی سے زیادہ ماؤں یا بچوں کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش کرنے اور ان کی تعلیم کے لیے جسمانی سزائیں ضروری ہیں۔
© UNICEF/Patricia Willocq
ایک چوتھائی سے زیادہ ماؤں یا بچوں کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش کرنے اور ان کی تعلیم کے لیے جسمانی سزائیں ضروری ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو جسمانی تشدد کا سامنا، یونیسف

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں 40 کروڑ بچوں کو گھروں پر سخت سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ بچے کھیل، آگے بڑھنے کی تحریک اور اپنے والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ میل جول سے محروم رہتے ہیں۔

کھیل کے پہلے عالمی دن پر یونیسف کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو گھروں پر تواتر سے نفسیاتی جارحیت یا سزا برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ان میں سے 33 کروڑ بچے ایسے ہیں جنہیں جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔

Tweet URL

دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جہاں بچوں کو گھروں پر سزا دینے کی ممانعت ہے۔ اس وقت ان ممالک کی تعداد 66 ہے جن میں نصف سے زیادہ نے گزشتہ 15 برس میں اس حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ تاہم اس کے باوجود پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً نصب ارب بچوں کو مناسب قانونی تحفظ میسر نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق بچوں کی نشوونما اور ذہنی صحت میں کھیل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے بچوں کو گھروں پر والدین اور اپنی دیکھ بھال کرنے والوں سے مثبت تحریک اور میل جول میسر نہیں آتا۔

مثبت و مشفقانہ نگہداشت

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ جب بچوں کو گھروں پر جسمانی یا زبانی بدسلوکی کا سامنا ہوتا ہے یا جب وہ اپنے عزیزوں کی جانب سے سماجی و جذباتی دیکھ بھال سے محروم رہتے ہیں تو ان میں اپنی قدروقیمت کا احساس کمزور پڑ جاتا ہے اور ان کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔

اچھی تربیت و نگہداشت اور والدین کی جانب سے دیکھ بھال کے نتیجے میں بچے خوش رہتے ہیں، انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے، وہ سیکھتے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے پہلے عالمی دن پر سبھی کو متحد ہو کر بچوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ کرنے اور ان کے لیے مثبت، مشفقانہ اور کھیلوں پر مبنی نگہداشت کو فروغ دینے کا عہد کرنا چاہیے۔

تنہائی و عدم تحفظ کا احساس

جائزے کے مطابق ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ ماؤں اور بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش کرنے اور انہیں تعلیم دینے کے لیے جسمانی سزائیں ضروری ہیں۔ 

بچوں کی نگہداشت کے طریقوں اور انہیں کھیل کے مواقع تک رسائی کے حوالے سے عدم مساوات بھی عام ہے۔ مثال کے طور پر، 2 تا 4 سال عمر کے تقریباً 40 فیصد بچوں کو گھروں پر والدین یا اپنی دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ میل جول کا موقع نہیں ملتا اور وہ ان کی جانب سے آگے بڑھنے کی تحریک سے محروم رہتے ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جذباتی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور وہ تنہائی و عدم تحفظ کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ایسے جذباتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو بالغ عمر کو پہنچنے پر بھی ان کی شخصیت کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ 

والدین کے لیے تربیتی پروگرام

دنیا بھر میں 10 فیصد بچے اپنے والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ ایسی سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جو ان کی ادراکی، سماجی و جذباتی ترقی جیسا کہ پڑھنے، کہانی بیان کرنے، گانے اور مصوری کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں، پانچ سال سے کم عمر کے ہر آٹھ میں سے ایک بچے کے پاس گھروں میں کھیلنے کے لیے کھلونے اور دیگر چیزیں نہیں ہوتیں۔

جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کے لیے تربیتی پروگراموں کی بدولت ان کی اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے، گھریلو تشدد اور بدسلوکی کے واقعات کم ہو جاتے ہیں اور بچوں اور والدین دونوں کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔ ان میں رہنمائی یا مثبت طریقہ کار سے روشناسی، والدین اور بچوں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی تربیت اور کھیل، تشدد کے بغیر بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور باہمی رابطوں کے پروگرام شامل ہیں۔ 

یونیسف کی سفارشات

ہر بچے کی محفوظ اور چاہے جانے کے احساس کے ساتھ بڑھوتری یقینی بنانے کے لیے یونیسف نے تمام حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی متعلقہ کوششوں کو بہتر بنائیں اور درج ذیل اقدامات پر سرمایہ کاری کریں: 

  • تحفظ: قانون اور پالیسی میں اس طرح بہتری لائی جائے جس سے گھروں میں بچوں کے ساتھ ہر طرح کے پرتشدد سلوک پر قابو پانے اور اس کا مکمل خاتمہ کرنے میں مدد ملے۔ 
  • بچوں کی نگہداشت میں تعاون: والدین کی تربیت کے ایسے پروگراموں کو وسعت دی جائے جن سے ان میں مثبت طرزعمل اور زندہ دلی کو فروغ ملے اور گھریلو تشدد کی روک تھام ممکن ہو۔
  • کھیل ہی کھیل میں تربیت: ابتدائی سکولوں، سکولوں اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے لیے سیکھنے اور کھیلنے کے مواقع کو وسعت دینے کے اقدامات کیے جائیں۔