انسانی کہانیاں عالمی تناظر
غزہ کے رمضان بازار میں ایک بچہ سجاوٹی سامان دیکھ رہا ہے۔

رمضان المبارک کی خوشیاں مناتے غزہ کے جنگ زدہ بچے

© UNRWA
غزہ کے رمضان بازار میں ایک بچہ سجاوٹی سامان دیکھ رہا ہے۔

رمضان المبارک کی خوشیاں مناتے غزہ کے جنگ زدہ بچے

مہاجرین اور پناہ گزین

وسطی غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پلاسٹک اور لکڑی سے بنے ایک خیمے میں رات کے وقت بڑی تعداد میں لالٹینیں روشن ہیں جو یہاں رہنے والے بچوں نے رمضان کی خوشی میں سجائی ہیں۔

دیرالبلح کے اس کیمپ میں رہنے والے بچوں نے جنگ کی تباہی کاریوں اور تمام تر مشکلات کے باوجود رمضان کا مقدس مہینہ روایتی جذبے سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

غزہ میں 7 اکتوبر سے جاری جنگ میں تقریباً 32 ہزار فلسطینی ہلاک اور 75 ہزار زخمی ہو گئے ہیں۔ تاہم اس کیمپ کی یہ روشنیاں جنگ کی تاریکی میں امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہیں۔

شہاد ایک بے گھر بچی ہے جو دیرالبلح کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
UN News/Ziad Taleb
شہاد ایک بے گھر بچی ہے جو دیرالبلح کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔

خیمہ بستی کی سجاوٹ

کیمپ میں رہنے والی ایک بچی شہاد نے غزہ کے لیے یو این نیوز کے نمائندے زید طالب کو بتایا کہ ان کے گھر میں ہر سال رمضان کا پرجوش انداز میں استقبال ہوتا آیا ہے لیکن یہ برس پہلے سے مختلف ہے۔ اب کے رمضان ایسے موقع پر آیا ہے جب علاقے میں جنگ زوروں پر ہے۔ 

اس کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی رمضان کے لیے لالٹینیں روشن کر کے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے ماحول کو تبدیل کرنے اور کیمپ کو سجانے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ 

یہ کہتے ہوئے شہاد کا چہرہ خوشی اور جوش سے دمک رہا تھا۔ 

کچی زمین پر قائم اس خیمے میں مقیم امیرہ کو شمالی غزہ میں اپنا بھرا پُرا گھر چھوڑ کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ بچوں کو مل کر دعا پڑھتا دیکھ کر وہ خوش نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "بچوں کی خوشی ہماری خوشی ہے۔"

دکھ، نقصان اور عزیزوں سے دوری کے باوجود انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رمضان کی خوشی ضرور منائیں گی۔

دیرالبلح کیمپ میں پناہ لیے ہوئے باقی بچوں کی طرح امیرہ نے بھی نامساعد حالات کے باوجود رمضان المبارک کی خوشیاں منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
UN News/Ziad Taleb
دیرالبلح کیمپ میں پناہ لیے ہوئے باقی بچوں کی طرح امیرہ نے بھی نامساعد حالات کے باوجود رمضان المبارک کی خوشیاں منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

فاقہ کشی پر مجبور

دیر البلح میں مقامی اور نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کو ایک جیسی تکالیف اور مسائل کا سامنا ہے۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، غزہ میں مجموعی طور پر 17 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اب علاقے میں بھوک پھیل رہی ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل دشوار تر ہوتی جا رہی ہے۔ تمام تر آبادی کی زندگی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق 11 لاکھ افراد کے پاس خوراک ختم ہو چکی ہے اور انہیں تباہ کن درجے کی بھوک اور فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ 

غزہ کے شمالی علاقے بیت حانون سے بے گھر ہو کر دیرالبلح آنے والے احمد عبد ربو مصلح بتاتے ہیں رمضان میں لوگوں کو کھانے کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ سادہ سا کھانا بھی 40 شیکل (تقریباً 11 ڈالر) میں ملتا ہے اور اس قیمت پر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ 

احمد بتاتے ہیں کہ مشکل ترین حالات کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح اپنے خاندان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کر لیتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کے لیے روٹی حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

احمد مصلح غزہ کے بیت حانون کیمپ سے نقل مکانی پر مجبور ہو کر اب دیرالبلح کیمپ میں مقیم ہیں۔
UN News/Ziad Taleb
احمد مصلح غزہ کے بیت حانون کیمپ سے نقل مکانی پر مجبور ہو کر اب دیرالبلح کیمپ میں مقیم ہیں۔

مختلف رمضان المبارک

کیمپ کے رہائشی احمد ثابت کا کہنا ہے کہ فروخت کے لیے دستیاب خوراک کی ناصرف مقدار بہت کم ہے بلکہ یہ اتنی مہنگی ہے کہ بیشتر لوگ اسے خرید نہیں سکتے۔ "اس مرتبہ رمضان میں ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔" 

غزہ شہر کے مشرقی علاقے شجاعیہ سے بے گھر ہو کر کیمپ میں آنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ کھانے کے لیے سبزی خریدنا بھی ممکن نہیں رہا۔ لوگ ہر شے سے محروم ہو گئے ہیں اور حالات روز بروز بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ 

ایک شخص نے بتایا کہ اس کے پاس خوراک خریدنے کے لیے رقم نہیں ہے جس کے باعث اسے مقامی طبی مرکز سے کھانا لینا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ رمضان میں حالات جس قدر المناک ہیں اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

وسطی غزہ میں واقع دیرالبلاح کا بازار۔
UN News/Ziad Taleb

امید کی کرن

سردیاں ختم ہونے کو ہیں اور غزہ کی جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہو رہی ہے۔ تاہم امیرہ کے خیمے میں امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں جہاں بچے لالٹینیں اور چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں۔ 

وہ کہتی ہیں کہ جنگ اور المیے کے باوجود بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ اپنا اور اپنے لوگوں کا حوصلہ بلند رکھنا اور موجودہ ماحول کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔