انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا میں چھبیس کروڑ تیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم

سوڈان میں دو لڑکیاں شمسی توانائی سے چلنے والی ٹیبلیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
© UNICEF/Florine Bos
سوڈان میں دو لڑکیاں شمسی توانائی سے چلنے والی ٹیبلیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

دنیا میں چھبیس کروڑ تیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے خبردار کیا ہے کہ عالمگیر وعدوں اور پیش رفت کے باوجود تقریباً 263 ملین بچے اور نوعمر افراد تعلیم محروم ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2030 تک ہر فرد کو معیاری تعلیم دلانے کا کام بری طرح بے سمت ہے۔

اس ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں کمیشن برائے آبادی و ترقی (سی پی ڈی) کے تازہ ترین اجلاس کے موقع پر یہ مسئلہ خاص طور پر زیرغور آیا۔

Tweet URL

اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے امینہ محمد نے ابتداً افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورتحال پر روشنی ڈالی جنہیں سکول اور یونیورسٹی کی تعلیم سے روک دیا گیا ہے۔ انہوں ںے اسے ''دور حاضر کا ایک گمبھیر تعلیمی مسئلہ'' قرار دیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ کیسے تعلیم تمام لوگوں اور کرہ ارض کے پائیدار مستقبل کے لیے ایک اہم اور طویل مدتی سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔

تہرا بحران

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ممالک کو تعلیم میں تہرے بحران کا سامنا ہے جس میں مساوات و شمولیت، معیار و اہمیت اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کو تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں درکار صلاحیتوں سے آراستہ کرنے جیسے مسائل شامل ہیں۔

دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی تعلیم سے محرومی عالمی برداری کو درپیش صرف ایک مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت بھی اتنی ہی باعث تشویش ہے کہ بہت سے طلبہ حصول تعلیم کے باوجود سیکھنے سے محروم ہیں۔ غریب ترین ممالک میں قریباً 70 فیصد بچے 10 سال کی عمر تک بنیادی عبارت نہیں سمجھے سکتے جس کی بڑی وجوہات میں غربت اور غذائی قلت جیسے دائمی عوامل شامل ہیں۔

'تعلیمی نظام میں تبدیلی لائیں'

امینہ محمد نے کہا کہ ''بالآخر ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بامقصد بنانے کے لیے اس پر ازسرنو غور کرنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ ہم زندگی بھر سیکھنے کا عمل کیسے جاری رکھ سکتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ امن سے رہنا سیکھنا ہو گا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کامیابی کے لیے تعلیم، ٹیکنالوجی اور آبادیاتی رحجانات کے مابین تعلق کا جائزہ لینے اور ان سے حاصل ہونے والے مواقع اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو مدنظر رکھ کر کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے سیکھنے والے تمام افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے اور انہیں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل اختراع کی دنیا کے ساتھ جوڑنے کے اقدامات کرنے کو کہا جو دنیا کے جنوبی حصے کی لڑکیوں اور خواتین کے لیے خاص طور پر ضروری ہیں جن کا شمار ایسے طبقات میں ہوتا ہے جو زندگی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں۔

'آبادیاتی تنوع'

عالمی برادری کو یہ دیکھنے کی ضرورت بھی ہو گی کہ دنیا کے ''آبادیاتی تنوع'' سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ بعض ممالک میں اوسط عمر 50 سال ہے اور بعض میں محض 15 سال۔ اس کا اطلاق معمر افراد پر بھی ہوتا ہے جو 2050 تک دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ہوں گے اور اس کا اطلاق جسمانی طور پر معذور افراد پر بھی ہوتا ہے۔

امینہ محمد نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے شمولیتی تعلیم اور سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت کو بھی واضح کیا۔

لڑکیوں لیے مواقع اور تبدیلی کا ذریعہ

اس موقع پر اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیا کینم نے صنفی موضوع پر بات کی جنہوں ںے تعلیم کو خاص طور پر کمزور خواتین اور لڑکیوں کے لیے ''نئے مواقع پیدا کرنے اور زندگی کو تبدیل کرنے کا ذریعہ'' قرار دیا۔

اقوام متحدہ میں جنسی و تولیدی صحت کے ادارے کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ''جب خواتین اور لڑکیوں کو ایسا علم اور صلاحیتیں مہیا کی جاتی ہیں جن کی انہیں آگاہی حاصل کرنے اور اپنے حقوق پر دعویٰ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو بہتر تعلیم یافتہ خواتین کے صحت مند زندگی گزارنے، مناسب وقت پر شادی کرنے اور اپنے بچوں کی تعداد اور ان کی پیدائش کے درمیان وقفہ خود طے کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

تعلیم کم عمری کی شادی، خواتین کے جنسی اعضا کی قطع و برید (ایف جی ایم)، دیگر نقصان دہ سلوک اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خطرے کو کم کر دیتی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی امور کے شعبے (ڈی ای ایس اے) کے سربراہ لی جنہوا نے پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آبادیاتی حرکیات تعلیم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے لاکھوں بچوں کی تعلیم سے محرومی اور ریاضی و پڑھنے کی ناقص استعداد کو بطور مثال پیش کیا۔

انہوں ںے بتایا کہ دنیا کے بعض حصوں میں جہاں سرکاری سطح پر تعلیم کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت محدود ہے وہاں سکول جانے کی عمر کے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے اپنے تعلیمی اہداف کے حصول میں درپیش مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔

نوجوان جمیکا میں ایک کانفرنس کے دوران پائیدار ترقی کے اہداف بارے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں۔
UN Jamaica
نوجوان جمیکا میں ایک کانفرنس کے دوران پائیدار ترقی کے اہداف بارے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں۔

وبا کا سبق

کووڈ۔19 وبا نے بھی تعلیمی نظام کے نقائص نمایاں کر دیے ہیں۔

لی جنہوا کا کہنا تھا کہ ''کم اور کم تر آمدنی والے ممالک میں بچے اور نوجوان تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں کیونکہ ان ممالک کو تعلیم کے لیے مختص سرکاری وسائل میں بہت بڑی کمی لانا پڑی ہے۔ انہوں نے حکومتوں کو اس شعبے میں سرمایہ کاری میں مدد دینے کی ضرورت کو واضح کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اس مقصد کے لیے کووڈ۔19 وبا سے سیکھے گئے سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل خواندگی میں سرمایہ کاری کرنے اور ڈیجیٹل تقسیم کو پاٹنے کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں تعلیم کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کو وسعت دیتے رہنا ہے۔''

ڈپریشن اور تعلیم جاری رکھنا مشکل

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ذِنگ کو کا کہنا تھا کہ وبا، جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے غذائی عدم تحفظ نے تعلیمی میدان میں عدم مساوات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 

انہوں نے سکول جانے سے محروم بچوں کی بہت بڑی تعداد اور دیگر عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال نے ایک دہرے بحران کو جنم دیا ہے جو سیکھنے اور بہبود کے عمل کو متاثر کر رہا ہے۔

جنسی تعلیم ضروری ہے

نتالیا کینم نے تمام افراد کے لیے تعلیم کو تحفظ دینے کی ضرورت کو واضح کیا جس میں جامع جنسی تعلیم (سی ایس ای) بھی شامل ہے جو بالغوں کو مثبت اور صحت مند تعلقات کے حوالے سے معلومات اور صلاحیتوں سے بہرہ ور کرتی ہے۔

سی ایس ای لڑکیوں کو اَن چاہے حمل سے بچنے میں مدد دیتی ہے اور لڑکیوں اور لڑکوں کو دیگر فوائد پہنچانے کے علاوہ تعلیم جاری رکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

انہوں ںے کہا کہ '''لوگوں کو اپنے تولیدی حقوق اور انتخاب کے حوالے سے معلومات اور اختیار دینا ایک معقول اقدام ہے جس سے ترقیاتی نتائج میں بہتری آتی ہے۔''

سی پی ڈی کے بارے میں

کمیشن برائے آبادی و ترقی (سی پی ڈی) کا قیام تقریباً 80 سال پہلے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ای سی او ایس او سی) کی جانب سے عمل میں آیا تھا جو اقوام متحدہ کے چھ بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔

اس کا 56واں اور موجودہ اجلاس جمعے کو ختم ہو گا۔