انسانی کہانیاں عالمی تناظر

گزشتہ 18 سالوں میں حقوق اطفال کی سنگین خلاف ورزیاں: یونیسف

خانہ جنگی سے متاثرہ یمن میں بچے ایک تباہ حال کار کے پاس کھڑے ہیں
© WFP/Jonathan Dumont
خانہ جنگی سے متاثرہ یمن میں بچے ایک تباہ حال کار کے پاس کھڑے ہیں

گزشتہ 18 سالوں میں حقوق اطفال کی سنگین خلاف ورزیاں: یونیسف

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے 2005 اور 2022 کے درمیان جنگوں میں بچوں کے حقوق کی 315,000 پامالیوں کی اطلاع دیتے ہوئے اسے نوعمر افراد پر "جنگ کے تباہ کن اثرات کی واضح عکاسی" قرار دیا ہے۔

ادارے نے اقوام متحدہ کے یہ مصدقہ اعدادوشمار اوسلو میں "مسلح تنازعات میں بچوں کے تحفظ" کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں پیش کئے جس میں ریاستی نمائندے، عطیہ دہندگان اور امدادی ادارے شرکت کر رہے ہیں۔

Tweet URL

ادارے نے جن 315,000 واقعات کا تذکرہ کیا ہے وہ افریقہ، ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور لاطینی امریکہ میں 30 سے زیادہ جنگی حالات کے دوران پیش آئے۔

ان واقعات میں 120,000 سے زیادہ بچے ہلاک یا معذور ہوئے، کم از کم 105,000 بچوں کو مسلح افواج یا مسلح گروہوں میں بھرتی یا استعمال کیا گیا، 32,500 سے زیادہ بچوں کو اغوا کیا گیا اور 16,000 سے زیادہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ نے سکولوں اور ہسپتالوں پر 16,000 سے زیادہ حملوں کی بھی تصدیق کی ہے اور ایسے 22,000 واقعات کے بارے میں بتایا ہے جب بچوں کو امداد کی فراہمی روکی گئی۔

یونیسف کا کہنا ہے کہ جنگی حالات میں بچوں کا حقیقی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، مزید لاکھوں بچے اپنے گھر اور علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے، انہوں نے اپنے دوستوں اور خاندان کو کھو دیا یا انہیں اپنے والدین یا نگہبانوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔

'بچوں کے خلاف جنگ'

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ "کوئی بھی جنگ بالآخر بچوں کے خلاف جنگ ہوتی ہے۔

جنگ کا سامنا کرنا تباہ کن ہوتا ہے جس سے بچوں کی زندگی تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ بچوں کو جنگ سے بچانے کے لئے کیا کرنا چاہئیے لیکن دنیا اس معاملے میں خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ سال بہ سال، اقوام متحدہ بچوں کی زندگی کو تباہ کر دینے والے کڑے، المناک اور بہت زیادہ قابل قیاس طریقوں کی تفصیل بتاتا ہے۔"

یونیسف کی سربراہ نے کہا کہ عالمی برادری میں سبھی پر لازم ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ "بڑوں کی جنگوں کی قیمت بچوں کو ادا نہ کرنا پڑے اور دنیا میں بعض انتہائی غیرمحفوظ بچوں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لئے درکار دلیرانہ اور ٹھوس اقدامات کریں۔"

یونیسف نے مسلح تنازعات سے متاثرہ لاکھوں بچوں کی نگہداشت اور تحفظ میں مدد دی ہے جس کے لئے ذہنی صحت کی خدمات اور نفسیاتی مدد کی فراہمی، بچوں کے تحفظ سے متعلق معاملات کے انتظام، اکیلے بچوں کے خاندانوں کی تلاش اور انہیں ان کے عزیزوں سے ملانا اور صنفی بنیاد پر تشدد سے متاثرہ بچوں کے لئے خدمات کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

یوکرین کے شہر کیئو کے ایک علاقے میں ایک بچی اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑی ہے۔
© UNICEF/Olena Hrom
یوکرین کے شہر کیئو کے ایک علاقے میں ایک بچی اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑی ہے۔

اوسلو میں نئے وعدوں کا مطالبہ

اوسلو کانفرنس میں یونیسف حکومتوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں نئے دلیرانہ اقدامات کریں جن کے تحت:

  • جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے تحفظ کے لئے پہلے سے موجود بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو برقرار رکھا جائے اور ان پر عملدرآمد کیا جائے جس میں سکولوں، ہسپتالوں اور محفوظ قرار دی گئی دیگر جگہوں جیسا کہ پانی اور نکاسی آب کی سہولیات کو حملے سے تحفظ دینا، مسلح گروہوں اور افواج کی جانب سے بچوں کی بھرتی اور انہیں جنگی مقاصد کے لئے استعمال کئے جانے کو روکنا اور انسانی آبادیوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال سے پرہیز شامل ہیں۔
  • بچوں کے حقوق کی پامالی کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔
  • جنگ زدہ ماحول میں رہنے والوں بچوں کے تحفظ کے لئے بڑھتی ہوئی ضروریات کی مطابقت سے مالی مدد کی فراہمی کے لئے ضروری وسائل سے کام لیا جائے اور اس سلسلے میں مطلوبہ پیمانے پر اور حالات کے مطابق درکار رفتار سے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس میں امدادی اقدامات اور بچوں کے تحفظ سے متعلق قومی افرادی قوت میں سرمایہ کاری کو شامل کیا جانا بھی ضروری ہے۔
  • کیتھرین رسل نے کہا کہ "ہمیں بچوں کے تحفظ سے متعلق ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو ہمیں درپیش مسائل سے نمٹنے کے لئے کافی ہوں۔ ہمیں تمام ضرورت مند بچوں بالخصوص انتہائی غیرمحفوظ بچوں تک پہنچنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کی ضرورت ہے۔