انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا کے مسائل مکالمے سے حل نہ ہونے پر مارٹن گرفتھس کو افسوس

امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار انڈر سیکرٹری جنرل مارٹن گرفتھس نیو یارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے۔
UN Photo/Mark Garten
امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار انڈر سیکرٹری جنرل مارٹن گرفتھس نیو یارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے۔

دنیا کے مسائل مکالمے سے حل نہ ہونے پر مارٹن گرفتھس کو افسوس

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے امدادی رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ بہت سے سنگین انسانی بحران دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں اور امدادی کارروائیوں کو مالی وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے حالات تین سال پہلے کے مقابلے میں مزید خراب ہو گئے ہیں جب انہوں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا بہت سا کام ادھورا رہ گیا ہے۔ 

مارٹن گرفتھس نے ان خیالات کا اظہار منگل کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں صحافیوں کے ساتھ بحیثیت امدادی رابطہ کار اپنی آخری بات چیت میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 80 سال پہلے اقوام متحدہ کے چارٹر میں کہا گیا تھا کہ تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن آج عالمی برادری اس اصول سے پوری طرح کام نہیں لے رہی۔ اعلیٰ سیاسی سفارت کاری کہیں دکھائی نہیں دیتی اور قوانین کی پامالی پر محاسبہ نہ ہونا ایک عام بات بن گئی ہے۔

امدادی ادارے مدد حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں تاہم انہیں نجات دہندہ سمجھنا درست نہیں۔ اس دنیا کے نجات دہندہ وہ لوگ ہیں جو جنگیں ختم کرتے اور امن لاتے ہیں۔

مارٹن گرفتھس نے اس سال فروری میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مشرق وسطیٰ کے بحران پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
UN Photo/Loey Felipe
مارٹن گرفتھس نے اس سال فروری میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مشرق وسطیٰ کے بحران پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

بحران اور تکالیف

مارٹن گرفتھس نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کی توجہ صرف غزہ، سوڈان اور یوکرین جیسے بڑے مسائل پر مرکوز ہے جبکہ شام، یمن اور ہیٹی جیسی جگہوں پر بھی لوگوں کو بہت بڑے پیمانے پر تکالیف کا سامنا ہے۔

رابطہ کار نے بتایا کہ تین سال پہلے جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو اس وقت ایتھوپیا میں ٹیگرے کا مسئلہ دنیا میں سب سے بڑا انسانی بحران تھا جو آج بھی کسی حد تک برقرار ہے۔ اگرچہ اس جنگ میں ہونے والے انسانی نقصان کی تفصیلات غیرواضح ہیں لیکن اندازے کے مطابق اس میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ 

ٹیگرے کا بحران انتہائی ہولناک ہے جس کے بارے میں آج کوئی بات نہیں ہوتی جبکہ ممکنہ طور پر وہاں قحط بھی پھیل سکتا ہے۔ 

افغانستان اور شکستہ امیدیں

انہوں نے کہا کہ ٹیگرے کا بحران افغانستان کے ہنگامی حالات میں دب کر رہ گیا جہاں اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی دوران ہیٹی میں بڑے پیمانے پر زلزلہ آیا جسے دنیا کی بہت کم توجہ مل پائی۔

طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد مارٹن گرفتھس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے کابل گئے تھے جہاں انہوں نے ملکی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں کچھ امید ہوئی تھی اور طالبان نے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کے حوالے سے تحریری طور پر وعدے کیے تھے۔ لیکن اب یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی احکامات جاری کیے لیکن افغانستان کے لوگوں کی خاطر اس کے ساتھ عالمی برادری کا تعلق قائم رہا۔ 

اس کے بعد فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے سے ایک اور انسانی بحران نے جنم لیا۔ 

یہ تمام واقعات تباہی، ضروریات، بے گھری، انسانی سمگلنگ، جنسی بدسلوکی اور ایسے نظام کی تباہی لائے جو کئی نسلوں سے لوگوں کو تحفظ دے رہے تھے۔ 

اس کے بعد غزہ اور سوڈان کے بحران ہر شے پر حاوی ہو گئے۔

امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس گزشتہ برس یوکرین کے دورے کے دوران۔
© UNOCHA/Saviano Abreu
امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس گزشتہ برس یوکرین کے دورے کے دوران۔

امدادی وسائل کی قلت

مارٹن گرفتھس نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً 30 کروڑ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ عطیہ دہندگان کی جانب سے مہیا کیے جانے والے امدادی وسائل کم ہو گئے ہیں۔ 

امدادی اداروں کو رواں سال 18 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کی مدد کے لیے 49 ارب ڈالر کے مالی وسائل درکار ہیں لیکن انہیں اب تک 8 ارب ڈالر ہی موصول ہوئے ہیں۔ نصف سال گزر چکا ہے اور امدادی وسائل کا حصول کبھی اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اب ہو گیا ہے۔ 

امدادی سفارت کاری

مارٹن گرفتھس کا کہنا تھا کہ ارضی سیاسی تقسیم کے باعث ختم ہوتی سیاسی سفارت کاری کی جگہ اب امدادی سفارت کاری نے لے لی ہے۔ 

انہوں نے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی فراہمی کے اقدام اور جولائی 2022 میں اس حوالے سے طے پانے والی باہمی مفاہمت کی یادداشت کی صورت میں امدادی سفارت کاری کے لیے اقوام متحدہ کے کردار پر فخر کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ امدادی سفارت کاری ہمارے لیے دنیا کی بہتری کا موقع ہے، تاہم اس کے ساتھ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ اعلیٰ سیاسی سفارتکاری اب دکھائی نہیں دیتی۔ 

سوڈان کے مخدوش حالات

مارٹن گرفتھس نے کہا کہ سوڈان میں جنگ بندی کے لیے ٹھوس کوششیں نہیں ہو رہیں جہاں انسانی حالات بدترین صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ملکی ریاست شمالی ڈارفر کے شہر الفاشر میں آٹھ لاکھ لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے اور خدشہ ہے کہ ملک بھر میں 50 لاکھ لوگوں کو قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کو ایسا خطرہ درپیش نہیں رہا۔ سوڈان میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہے تاہم یہ واضح ہے کہ دنیا تنازعات کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔

انہوں نے یمن کے بارے میں اچھی امیدوں کا اظہار کیا جہاں گزشتہ چند برس سے تنازع کے خاتمے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ پیش رفت مزید آگے نہیں بڑھ رہی۔ تنازعات کو ختم کرنے میں بات چیت اور مکالمے سے کام لینا ایک بہترین اصول ہے لیکن اب یہ بین الاقوامی سفارت کاری کا لازمی جزو نہیں رہا۔

علاوہ ازیں اختلافات کا بات چیت کے بجائے بندوق کے ذریعے حل نکالنے کا رحجان تقویت پکڑ رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے کوششیں نہیں ہو رہیں۔

مارٹن گرفتھس نے سال دو ہزار بائیس میں بورکینا فاسو کا دورہ کیا جہاں انہوں نے تنازعات اور موسمی حالات کی وجہ سے بے گھری کا شکار افراد سے ملاقاتیں بھی کیں۔
OCHA

ناکام دنیا

انہوں نے دوران جنگ شہریوں کو تحفط دینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد کو سراہا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ دنیا انسانوں کے لیے کوئی زیادہ بہتر جگہ نہیں رہی۔ 

انہوں نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگوں میں ہسپتالوں اور طبی مراکز کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے بہت سے کارکن غزہ میں ہلاک کر دیے گئے ہیں اور اب اس ادارے کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

مارٹن گرفتھس کا کہنا تھا کہ دنیا تنازعات کو حل نہیں کر رہی۔ اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت اور مکالمے سے کام نہیں لیا جا رہا۔ 80 سال پہلے اقوام متحدہ کا چارٹر وضع کرتے وقت کہا گیا تھا کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دیا جائے گا لیکن آج یہ تحفظ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔