انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انسانی امدادی ضروریات بے پناہ لیکن دستیاب وسائل کم: گوتیرش

مالی میں اس سال مارچ میں آئے سمندری طوفان ’فریڈی‘ کے متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہے۔
© WFP/Badre Bahaji
مالی میں اس سال مارچ میں آئے سمندری طوفان ’فریڈی‘ کے متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہے۔

انسانی امدادی ضروریات بے پناہ لیکن دستیاب وسائل کم: گوتیرش

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور مالیاتی ابتری کے باعث انسانی امداد کی ضرورت بڑھ رہی ہے لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث حالات میں تکلیف دہ تنزل رونما ہو رہا ہے۔

اس بحران پر قابو پانے کے اقدامات سے متعلق بدھ کو جنیوا میں ایک اجلاس میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں 360 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ تعداد 2022 کے آغاز کے مقابلے میں 30 فیصد تک زیادہ ہے اور ایسے میں عالمگیر امدادی ضروریات ایک مرتبہ پھر ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی ہیں۔

Tweet URL

انسانی امداد سے متعلق اہم مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے تخلیق کردہ 'امدادی امور کے حصے' کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے بعض پریشان کن اعدادوشمار کا حوالہ دیا جن کے مطابق 110 ملین سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے جبکہ 260 ملین سے زیادہ لوگوں کو خوراک کے حصول میں روزانہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا ہے۔

قحط کا بڑھتا خطرہ

اگرچہ یہ اعدادوشمار تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے محرکات برقرار ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے حل طلب تنازعات کے تباہ کن اثرات کا حوالہ دیا جو طویل ہو رہے ہیں جبکہ اس دوران نئی جنگیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ عالمگیر معاشی ابتری کووڈ وبا میں شروع ہوئی اور یوکرین پر روس کے حملے کے عالمگیر اثرات کے سبب اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی نقصان میں اضافے اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والا ایک اور ضرر رساں عنصر ہے۔ 

انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا کہ سب سے زیادہ بدحال لوگ ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی روک تھام کا حتمی ذریعہ یعنی پائیدار ترقی یا تو جمود کا شکار ہے یا یا اس کا پہیہ الٹا چل رہا ہے۔

مالی وسائل کی فراہمی کا بحران 

بڑھتے ہوئے مسلح تنازعات کے بہت سے ذمہ دار بین الاقوامی قانون کو پامال کر رہے ہیں اور ہسپتالوں، سکولوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق بشمول خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا متواتر ارتکاب ہو رہا ہے۔ 

اس کے جواب میں امدادی ادارے اور اقوام متحدہ کے شراکت دار دنیا بھر میں ہنگامی امداد کی فراہمی کے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ 

گزشتہ برس یوکرین میں امدادی کارکنوں نے تقریباً 15.4 ملین لوگوں کو امداد کی فراہمی میں اضافہ کیا۔ اس سال کے آغاز پر افغانستان میں 17 ملین، نائیجیریا میں 2.8 ملین، اور جمہوریہ کانگو میں 2.5 ملین لوگوں نے انسانی امداد وصول کی۔ 

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں 'بہت بڑی' تھیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے لئے مطلوبہ مقدار یں مالی وسائل اکٹھے نہیں ہو سکے۔

2023 کا نصف عرصہ گزرنے کے بعد رواں سال دنیا بھر کے لئے درکار امدادی وسائل کا صرف 20 فیصد ہی جمع ہو پایا ہے۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ یہ بحران در بحران کی کیفیت ہے۔ مالی وسائل کی کمی سے شام، بنگلہ دیش، مقبوضہ فلسطینی علاقے، افغانستان اور یمن میں دی جانے والی غذائی امداد میں کٹوتی کرنا پڑی ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ مالی وسائل کی فراہمی کا بحران حل نہ ہوا تو ایسی مزید کٹوتیاں کرنا پڑ سکتی ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ سال آئے تباہ کن سیلاب سے بے گھر ہونے والا ایک خاندان۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے تھے۔
© UNICEF/Asad Zaidi
پاکستان میں گزشتہ سال آئے تباہ کن سیلاب سے بے گھر ہونے والا ایک خاندان۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے تھے۔

مسائل کے حل پر توجہ

سیکرٹری جنرل نے اجلاس کے شرکا کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مزید تسلی بخش اور موثر انداز میں امداد کی فراہمی، لوگوں کو بحرانوں میں بہتر طور سے تحفظ دینے، غذائی عدم تحفظ میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات میں سرمایہ کاری کے ذریعے استحکام میں اضافہ کرنے کے طریقوں پر غور کریں۔

'ای سی او ایس او سی' کے 'امدادی امور کے حصے' میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک، اس کے ادارے، امدادی و ترقیاتی شراکت دار، نجی شعبہ اور متاثرہ لوگ شامل ہیں۔ 

یہ تمام فریقین ہر سال جون میں اکٹھے ہوتے اور تازہ ترین امدادی خدشات اور بحرانوں پر بہتر طور پر قابو پانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔