انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خطرات کے باوجود امدادی کارکن خدمات سرانجام دینے میں مصروف

سوڈان کے بحران سے جان بچا کر بھاگنے والے افراد جنوبی سوڈان میں ایک امدادی کارکن کے ساتھ۔
© UNOCHA/Iramaku Vundru Wilfred
سوڈان کے بحران سے جان بچا کر بھاگنے والے افراد جنوبی سوڈان میں ایک امدادی کارکن کے ساتھ۔

خطرات کے باوجود امدادی کارکن خدمات سرانجام دینے میں مصروف

انسانی امداد

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ جنوبی سوڈان اور اس کے شمالی ہمسایوں جیسے ممالک میں جنگ اور عدم تحفظ کی صورتحال کے باعث 2023 میں بھی نچلی سطح پر کام کرنے والے امدادی کارکن بڑی تعداد میں ہلاک و زخمی ہو سکتے ہیں۔

یہ خوفناک پیش گوئی امدادی کارکنوں کے عالمی دن سے پہلے کی گئی ہے جو ہر سال 19 اگست کو منایا جاتا ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ نے غیرجانبدار تحقیقاتی ادارے "امدادی نتائج" کی جمع کردہ عبوری معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں 62 امدادی کارکن ہلاک، 84 زخمی اور 34 لاپتہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس ہلاک ہونے والے امدادی کارکنوں کی تعداد 116 تھی۔ 

امدادی کارکنوں پر حملے 

جنوبی سوڈان امدادی کارکنوں کے لیے خطرناک ترین جگہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق 16 اگست تک وہاں ان کارکنوں پر 40 حملے ہوئے جن میں 22 افراد کی ہلاکت ہوئی۔

اس کے بعد سوڈان کا نمبر آتا ہے جہاں ایسے 17 حملوں میں 19 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ یہ 2006 اور 2009 کے درمیان ڈارفر کی لڑائی کے عروج پر ہونے والے امدادی کارکنوں کے جانی نقصان سے زیادہ بڑی تعداد ہے۔ 

اس کے علاوہ امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں کے واقعات وسطی جمہوریہ افریقہ، مالی، صومالیہ اور یوکرین میں پیش آئے ہیں۔ گزشتہ برس 444 امدادی کارکنوں پر حملے ہوئے جبکہ 2021 میں ان کی تعداد 460 رہی جن میں 141 ہلاکتیں ہوئیں۔ 

کینال ہوٹل سانحہ 

اس برس امدادی کارکنوں کے عالمی دن پر عراقی دارالحکومت بغداد کے کینال ہوٹل میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کو بھی 20 سال مکمل ہو جائیں گے۔ 

اس حملے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ سرجیو وائرا ڈی میلو سمیت عملے کے بائیس افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ مقامی اور بین الاقوامی امدادی کارکن زخمی ہو گئے تھے۔ 

اقوام متحدہ میں امدادی امور کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ امدادی کارکنوں کا عالمی دن اور کینال ہوٹل پر بم حملے کا واقعہ ان کے اور بہت سے دیگر لوگوں کے لیے ملے جلے اور تکلیف دہ احساسات کا موقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ بغداد میں اس تاریک دن کے بعد دنیا بھر میں ہر سال اس سے تقریباً چھ گنا بڑی تعداد میں امدادی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں بڑی تعداد مقامی کارکنوں کی تھی۔ ان جرائم کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ ملنا ہمارے اجتماعی ضمیر پر داغ ہے۔ 

مہم ’کچھ بھی ہو جائے‘ 

اس برس اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کا مقصد 250 ملین سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا ہے اور یہ تعداد 2003 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔ 

امدادی کاوشوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم امدادی کارکنوں کو درپیش خطرات بھی بڑھ گئے ہیں جن میں بڑھتی ہوئی ارضی سیاسی کشیدگی، بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی توہین، دانستہ حملے اور بڑے پیمانے پر پھیلائی جانے والی غلط اطلاعات بھی شامل ہیں۔ 

#NoMatterWhat مہم کے ذریعے امدادی ادارے مسائل کے باوجود مدد مہیا کرنے کے اپنے عزم کو واضح کر رہے ہیں۔

اس مہم کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ کیسے وہ ضرورت مند لوگوں کی مدد جاری رکھیں گے خواہ وہ کوئی بھی اور کہیں بھی ہوں اور خواہ انہیں مدد پہنچانے میں کیسے ہی حالات درپیش کیوں نہ ہوں۔ 

اس مہم کو اقوام متحدہ کے امدادی امور کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) نے منظم کیا ہے۔