انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان: کم عمر اقلیتی لڑکیوں کی جبری تبدیلیِ مذہب و شادیوں پر تشویش

ماہرین نے واضح کیا ہے کہ نوعمری کی اور جبری شادی کو مذہبی یا ثقافتی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
© Unsplash/Shiza Nazir
ماہرین نے واضح کیا ہے کہ نوعمری کی اور جبری شادی کو مذہبی یا ثقافتی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستان: کم عمر اقلیتی لڑکیوں کی جبری تبدیلیِ مذہب و شادیوں پر تشویش

انسانی حقوق

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان میں اقلیتی مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادی سے تحفظ کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین نے پاکستان کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ فریقین کی مکمل رضامندی سے اور آزادانہ طور پر شادیوں کو یقینی بنانے کے قوانین کا لازمی اور پوری طرح نفاذ کریں۔ شادی کے لیے 18 سال کی قانونی عمر میں اضافہ کیا جائے اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک سے تحفظ ملنا چاہیے۔

Tweet URL

انہوں نے حکومت سے ایسے واقعات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، اقلیتی برادریوں کی لڑکیوں کو نوعمری میں اور جبری شادی، جبری تبدیلی مذہب، اغوا اور انسانی سمگلنگ سے قانونی تحفظ دینے پر بھی زور دیا ہے۔ 

مذہبی قوانین کا ناجائز استعمال

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر عیسائی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو جبری تبدیلی مذہب، اغوا، انسانی سمگلنگ، نوعمری میں اور جبری شادی، گھریلو محکومانہ مشقت اور جنسی تشدد سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ان نوعمر خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی ایسی وحشیانہ پامالیوں اور اس کے ذمہ داروں کو ان جرائم کے ارتکاب کی کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے اس امر کو باعث تشویش قرار دیا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے جائز قرار دی جانے والی جبری شادیوں اور تبدیلی مذہب کے اقدامات میں متاثرین کو ان کے والدین کے بجائے اغوا کاروں کی تحویل میں دینے کے لیے عام طور پر مذہبی قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح ایسے اقدامات کے ذمہ دار عناصر احتساب سے بچ جاتے ہیں اور پولیس ان واقعات کو 'محبت کی شادی' قرار دے کر مقدمہ خارج کر دیتی ہے۔ 

خواتین کو قانونی تحفظ کی ضرورت

ماہرین نے واضح کیا ہے کہ نوعمری میں اور جبری شادی کو مذہبی یا ثقافتی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت جب کسی متاثرہ بچے کی عمر 18 سال سے کم ہو تو ایسی شادی میں اس کی 'رضامندی' کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ کسی خاتون کے لیے شریک حیات کے انتخاب، آزادانہ طور سے شادی اور بحیثیت انسان وقار اور مساوات کی مرکزی اہمیت ہوتی ہے اور اسے قانونی تحفظ ملنا چاہیے۔ قانون میں دباؤ کے تحت شادی کو کالعدم، منسوخ یا ختم کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے اور متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی انصاف، ازالے و تحفظ تک رسائی اور انہیں مناسب مدد کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہیے۔

جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام

ماہرین نے پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے مخصوص واقعات کا حوالہ بھی دیا ہے جن میں ایک کمسن لڑکی مشال رشید کا کیس بھی شامل ہے جسے 2022 میں سکول جاتے وقت بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا گیا تھا۔ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قبول اسلام اور اپنے اغوا کار سے شادی کے لیے مجبور کیا گیا۔ 

اسی طرح، 13 مارچ 2024 کو ایک 13 سالہ عیسائی لڑکی کو اغوا کر کے اسے اپنا مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے اور اغوا کار کے ساتھ شادی پر مجبور کیا گیا جبکہ شادی کے سرٹیفکیٹ پر اس کی عمر 18 سال درج کی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کے حقوق پر عالمی کنونشن کے آرٹیکل 14 کی مطابقت سے ہر فرد کے سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق کے باوجود مذہب یا عقیدے کی تبدیلی آزادانہ اور ہر طرح کے جبر اور ناجائز تحریص و ترغیب کے بغیر ہونی چاہیے۔ 

پاکستان کو 'شہری و سیاسی حقوق پر بین الاقوامی کنونشن' کے آرٹیکل 18 کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کرنی چاہیے اور جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے اقدامات کرنا چاہئیں۔

انسانی حقوق کے ماہرین

خصوصی اطلاع کاراورغیرجانبدارماہرین جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کی جانب سے حقوق سے متعلق کسی خاص موضوع یا کسی ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا تجزیہ کرنے اور رپورٹ دینے کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔

یہ عہدے اعزازی ہیں اور ماہرین کو ان کے کام پر کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ان ماہرین کا تعلق کسی حکومت یا ادارے سے نہیں ہوتا، یہ انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ بھی نہیں ہوتے۔