کم عمری کی شادیوں میں کمی کے رحجان کو بحرانوں سے خطرہ: یونیسف
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں میں متواتر کمی آ رہی ہے تاہم جنگ، موسمیاتی حادثات اور کووڈ وبا سمیت بہت سے بحران اس لعنت کے خلاف حاصل ہونے والی کمزور کامیابیوں کے لئے خطرہ ہیں۔
یونیسف کی جاری کردی نئی رپورٹ میں ''کیا کم عمری کی شادیوں کا خاتمہ ممکن ہے؟' کے عنوان سے ایک نئے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 20 سے 24 سال عمر کی بیس فیصد خواتین ایسی ہیں جن کی شادی کم عمری میں ہوئی تھی جبکہ قریباً ایک دہائی پہلے یہ تعداد پچیس فیصد تھی۔
یہ تجزیہ اس مسئلے کے حوالے سے تازہ ترین رحجانات اور مستقبل کے امکانات کی عکاسی کرتا ہے۔
کچلے خواب
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائن رسل کا کہنا ہے کہ ''دنیا متواتر بحرانوں کی زد میں ہے جو کمزور بچوں خصوصاً ایسی لڑکیوں کے خوابوں کو کچل رہے ہیں جنہیں اس عمر میں دلہن کے بجائے طالب علم ہونا چاہیے۔
طبی اور معاشی بحران، بڑھتے ہوئے مسلح تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کے سبب بہت سے خاندان اس غلط احساس کا شکار ہیں کہ بچوں کی کم عمری میں شادی انہیں تحفظ مہیا کر سکتی ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کے لئے ہرممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم اور بااختیار زندگی سے متعلق بچوں کے حقوق محفوظ رہیں۔''
کم عمری کی شادی کے فوری نتائج
یونیسف کے مطابق جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے انہیں اس کے فوری اور طویل مدتی نتائج کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے سکول میں زیرتعلیم رہنے کا امکان کم ہوتا ہے اور قبل از وقت حاملہ ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جس کا نتیجہ زچہ بچہ کی صحت سے متعلق پیچیدگیوں اور اموات کے خدشات میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
کم عمری میں شادی کے نتیجے میں لڑکیاں اپنے خاندان اور دوستوں سے بھی دور ہو جاتی ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں جس سے ان کی ذہنی صحت و بہبود کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔
رپورٹ میں کم عمری کی شادی میں کمی کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انڈیا میں ایسی شادیوں کی تعداد میں کمی کا غالب کردار ہے۔ تاہم اب بھی کم عمری میں سب سے زیادہ شادیاں انڈیا میں ہی ہوتی ہیں۔
پیش رفت ممکن
تجزیے کے مطابق، اس معاملے میں پیش رفت دیگر پہلوؤں سے بھی واضح ہے اور یہ گنجان آباد ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں تاریخی طور پر کم عمری کی شادیوں کا عام رواج رہا ہے۔ ان میں بنگلہ دیش اور ایتھوپیا جیسے ممالک شامل ہیں۔
دوسری جانب مالدیپ اور روانڈا جیسے بعض چھوٹے ممالک میں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے جہاں کم عمری کی شادیوں کا زیادہ رحجان نہیں ہے اور وہاں یہ روایت ختم ہونے کو ہے۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر طرح کے حالات والے ممالک میں پیش رفت ممکن ہے۔
تاہم ان ممالک میں بعض چیزیں مشترک بھی ہیں جن میں معاشی ترقی میں بہتری، غربت میں کمی، روزگار تک رسائی اور ثانوی سطح تک تعلیم کا حصول خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔