انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یمن خانہ جنگی: ملک کی نصف آبادی انسانی امداد کی منتظر

یمن کے شہر عدن میں ایک بچے کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
© IOM/Rami Ibrahim
یمن کے شہر عدن میں ایک بچے کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

یمن خانہ جنگی: ملک کی نصف آبادی انسانی امداد کی منتظر

انسانی امداد

یمن کا تنازع 10 ویں برس میں داخل ہو گیا ہے اور اس موقع پر اقوام متحدہ کے امدادی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں نصف سے زیادہ آبادی کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، یمن میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو طبی مدد درکار ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے متعدل سے لے کر شدید درجے کی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں جن کی تعداد تقریباً 24 لاکھ ہے۔

Tweet URL

مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں 'ڈبلیو ایچ او' کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی نے کہا ہے کہ تنازع کا خاتمہ کرنا اور یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی بھوک، بیماریوں کے پھیلاؤ اور ہسپتالوں کی بندش کو معمول نہیں بننا چاہیے۔ 

امدادی وسائل میں کمی

یمن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے بڑے حصے پر قابض حوثی باغیوں کے مابین لڑائی کے دوران ملک کے لیے عالمی امداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 

گزشتہ پانچ برس میں 'ڈبلیو ایچ او' کی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں یہ کمی 45 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا اندازہ ہے کہ رواں سال لوگوں کو ضروری طبی خدمات کی فراہمی کے لیے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ 

گزشتہ برس قدرتی آفات بالخصوص شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنا پڑی۔

ڈبلیو ایچ او کی طبی خدمات

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ تقریباً 45 لاکھ لوگ تاحال اندرون ملک بے گھر ہیں۔ ان میں 80 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ 

اس وقت 'ڈبلیو ایچ او' ملک میں بچوں کو غذائیت فراہم کرنے کے 96 مراکز چلا رہا ہے جن سے ہر سال 30 ہزار بچوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ 270 سے زیادہ اضلاع میں غذائیت کی صورتحال کا جائزہ لینے کی خدمات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان مراکز میں کامیاب علاج کی شرح 96 فیصد ہے جو بین الاقوامی معیار سے بھی بلند ہے۔