انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جہازوں پر حوثیوں کے حملوں سے عالمی تجارت بری طرح متاثر: انکٹاڈ

بحیرہ اسود میں تجارتی جہازوں پر حملوں سے بین الاقوامی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
© Unsplash/Angus Gray
بحیرہ اسود میں تجارتی جہازوں پر حملوں سے بین الاقوامی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

جہازوں پر حوثیوں کے حملوں سے عالمی تجارت بری طرح متاثر: انکٹاڈ

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے تجارتی و ترقیاتی ادارے (انکٹاڈ) نے کہا ہے کہ بحیرہ احمر میں جہازوں پر حوثیوں کے حملے عالمگیر تجارت اور پیداوار و ترسیل کے نظام پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

ادارے میں شعبہ تجارتی انتظام کے سربراہ جان ہوفمین کے مطابق ان حملوں سے ارضی سیاسی کشیدگی ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ اشیا کی قیمتوں اور گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کے اخراج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے جنیوا سے ویڈیو لنک کے ذریعے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمگیر تجارت کا بڑی حد تک دارومدار سمندری نقل و حمل پر ہوتا ہے۔ اس میں آنے والے حالیہ خلل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارضی سیاسی امور، کشیدگی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل اس پر کس طرح انداز ہوتی ہے۔ 

حملے اور جوابی حملے

یمن کے حوثی باغی انصاراللہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں اور اس وقت بحیرہ احمر کی بندرگاہ سمیت ملک کا بڑا حصہ انہی کے زیرتسلط ہے۔ 

حوثیوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد بحیرہ احمر میں جہازوں کے خلاف اپنی کارروائیاں شروع کیں جن میں نومبر 2023 کے بعد شدت آ گئی۔ ان کارروائیوں میں نہر سوئز کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ انہی جہازوں کو ہدف بنا رہے ہیں جن کی منزل اسرائیل ہے۔ 

ان حملوں کے جواب میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے سمندر اور پھر زمین سے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغے ہیں جس کے باعث خطے میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے۔ 

اہم ترین تجارتی گزرگاہ

نہر سوئز بین الاقوامی جہاز رانی میں اہم ترین گزرگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 12 تا 15 فیصد عالمی تجارت اور کنٹینر بردار 20 فیصد بحری جہازوں کی آمد و روفت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ نہر سوئز میں یا اس کے آس پاس آنے والی رکاوٹوں کے دنیا بھر میں تباہ کن اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مارچ 2021 میں یہاں ایور گِون نامی کنٹینر بردار بحری جہاز خشکی پر چڑھ گیا تھا جس کے باعث اس راستے پر عالمی تجارت چھ روز تک معطل رہی۔ 

بحیرہ احمر میں حملوں کے خدشے کے پیش نظر بحری جہاز اس راستے پر سفر سے اجتناب کرتے ہوئے جنوب میں افریقہ کے گرد چکر لگا کر یورپ اور مغربی افریقہ جا رہے ہیں۔ 

ان حالات میں بحیرہ احمر کے راستے کنٹینروں کی آمدورفت میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 67 فیصد کمی آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی تجارتی ترسیل پر پڑا ہے۔ 'انکٹاڈ' کے مطابق 16 جنوری کے بعد گیس لے جانے والے ٹینکروں کی نقل و حرکت سرے سے بند ہو گئی ہے۔حالیہ بحران سے پہلے روزانہ ایسے دو سے تین ٹینکر بحیرہ احمر سے گزرتے تھے۔

عالمگیر جہاز رانی کا بحران

ہوفیمن کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملوں کے اثرات غیرمعمولی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دسمبر 2023 کے اوائل سے اب تک شنگھائی (چین) سے کوئی چیز منگوانے پر اٹھنے والے اخراجات میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یورپ بھیجی جانے والی چیزوں کی قیمتِ ترسیل تین گنا بڑھ گئی ہے جبکہ امریکہ کے لیے تجارتی ترسیلات کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اگرچہ اس کی تجارت نہر سوئز کے راستے نہیں ہوتی۔ 

یہ مسائل ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب عالمگیر تجارت کو یوکرین کی جنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے نہر پانامہ میں پانی کی کمی کے مسئلے کا سامنا ہے۔ نتیجتاً اس گزرگاہ سے جہازوں کی آمدورفت میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 36 فیصد اور پچھلے دو سال کے مقابلے میں 62 فیصد تک کمی آئی ہے۔

جان ہوفمین کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر کی صورتحال کے باعث تجارتی نقل و حمل پر اخراجات بڑھ رہے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، تجارتی سامان کی ترسیل تاخیر اور خلل کا شکار ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں بھی شدت آ رہی ہے۔