انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پدرشاہی کمزور لیکن خواتین کے حقوق کو خطرے اب بھی لاحق، گوتیرش

بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں خواتین تشدد کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔
© UN Women/Magfuzur Rahman Shana
بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں خواتین تشدد کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔

پدرشاہی کمزور لیکن خواتین کے حقوق کو خطرے اب بھی لاحق، گوتیرش

خواتین

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دہائیوں کی ترقی کے بعد ایک مرتبہ پھر خواتین کے حقوق خطرے میں ہیں اور اس رحجان پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کو ٹھوس کردار ادا کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، اسرائیل۔فلسطین تنازع میں جنسی تشدد کی اطلاعات آ رہی ہیں اور پدرشاہانہ نظام خواتین کے حقوق سے متعلق کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو غارت کر رہا ہے۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے یہ بات خواتین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے کمیشن (سی ایس ڈبلیو 68) کے اجلاس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ کمیشن کا اجلاس اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں جاری ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر بات چیت ہو رہی ہے۔ 

مساوات کے لیے سرمایہ کاری

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ مساوات سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کو مساوی حقوق کی فراہمی کے لیے مالی وسائل اور مواقع فراہم کریں۔ حکومتوں اور سول سوسائٹی کو قیام امن، ڈیجیٹل تقسیم کے خاتمے اور صنفی مساوات یقینی بنانے کے لیے فیصلہ سازی میں خواتین کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ 

رواں سال ستمبر میں ہونے والی مستقبل کی کانفرنس اس حوالے سے پیش رفت میں اضافے کا موقع ہو گا۔ اس کانفرنس کی منصوبہ بندی کے لیے ہونے والے کام میں خواتین اور لڑکیاں مستقل ترجیح ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ ایسی دنیا کے لیے جدوجہد کبھی ترک نہیں کریں گے جس میں خواتین اور لڑکیوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ صںفی مساوات کا مسئلہ دراصل اختیار کا مسئلہ ہے۔ اختیار دیا نہیں جاتا بلکہ اسے لینا پڑتا ہے۔

غزہ: روزانہ 50 خواتین کی ہلاکت

اس موقع پر ایک اجلاس میں اقوام متحدہ کےا داروں اور شراکت داروں نے جنگ زدہ غزہ میں خواتین اور بچوں کو درپیش حالات پر بات چیت کی۔ 

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کی عہدیدار ہیلی یوسیکیلا نے علاقے میں مخدوش انسانی حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیاں اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں 13 ہزار بچوں اور 9 ہزار خواتین کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

صحت و صفائی کے فقدان کے باعث غزہ بھر میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ علاقے میں اس وقت 888 افراد کو ایک بیت الخلا اور 5,400 لوگوں کو ایک غسلخانہ میسر ہے۔ لوگ فاقہ کشی کر رہے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 

قحط کا سنگین خطرہ

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تولیدی صحت (یو این ایف پی اے) کی لیلیٰ بکر نے بتایا کہ غزہ میں روزانہ 180 بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کو خوراک میسر نہیں ہے۔اکتوبر میں غذائی قلت کا شکار دو سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ایک فیصد تھی جو آج 15 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ 

غزہ میں بھوک مہلک خطرہ بن چکی ہے جہاں لوگوں کو روزانہ اپنی بقا کی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ علاقے میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قحط کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔ 

جنگ بندی کی فوری ضرورت

لیلیٰ بکر نے عالمی عدالت انصاف کے احکامات کی روشنی میں غزہ کے شہریوں کو انسانی امداد کی فوری اور محفوظ طور سے فراہمی کی ضرورت پر زور دیا۔ 

انہوں نے تمام لوگوں کو یکساں تحفظ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فوری جنگ بندی ہی ان حالات پر قابو پانے کا واحد راستہ ہے۔'یو این ایف پی اے' اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر انتھک کام کر رہا ہے لیکن امدادی ٹیموں کو حملوں کا سامنا ہے جبکہ مریضوں کے لیے ادویات اور علاج معالجے کے سامان کی شدید قلت درپیش ہے۔

'سی ایس ڈبلیو 68' میں دنیا بھر سے 7,000 مندوبین شریک ہیں۔ 11 مارچ سے شروع ہونے والا یہ اجلاس 22 مارچ تک جاری رہے گا۔ کمیشن کے تعارف اور اجلاس کے بارے میں مزید جانیے۔