انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انسداد دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال سے انسانی حقوق کو خطرہ

دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں اظہار رائے، اجتماع، میل جول اور پر امن سیاسی سرگرمیوں کو مجرمانہ فعل قرار دینا بھی عام ہے۔
MINUSTAH
دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں اظہار رائے، اجتماع، میل جول اور پر امن سیاسی سرگرمیوں کو مجرمانہ فعل قرار دینا بھی عام ہے۔

انسداد دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال سے انسانی حقوق کو خطرہ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار بین سول نے کہا ہے کہ دو دہائیوں سے عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کے لیے بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ان میں انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کا مضبوط عزم دکھائی نہیں دیتا۔

'انسداد دہشت گردی میں انسانی حقوق کے فروغ و تحفظ' کے معاملے پر خصوصی اطلاع کار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا ناجائز استعمال ملزموں کے حقوق کی پامالی اور بے گناہ لوگوں کی آزادیوں کے لیے خطرہ ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کی جانے والی اپنی پہلی رپورٹ میں انہوں نے انسداد دہشت گردی کے عمل میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، ناجائز گرفتاریوں، تشدد، غیرشفاف مقدمات، نجی زندگی میں مداخلت اور بڑے پیمانے پر نگرانی کی اطلاع دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے دہرے معیارات اور بڑی طاقتوں کی جانب سے حقوق کا مخصوص حالات میں اطلاق انسانی حقوق کے بین الاقوامی نظام کی ساکھ اور اس پر عوامی اعتماد کو ختم کر رہا ہے۔

قوانین کا غیرمتناسب استعمال

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی روک تھام کے دوران اظہار، اجتماع، میل جول اور پر امن سیاسی سرگرمیوں کو مجرمانہ فعل قرار دینا بھی عام ہے۔ 

انہوں نے بہت سی شہری آزادیوں کو جرم قرار دینے اور دہشت گردی پر دی جانے والی سزاؤں کو سول سوسائٹی بشمول سیاسی مخالفین، حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، اقلیتوں اور طلبہ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیے جانے کی بھی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متعدد ممالک میں ناقابل جواز اور طویل ترین ہنگامی حالات کے نفاذ سے انسانی حقوق کو نقصان ہو رہا ہے۔ 

بین سول نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عسکری طاقت کے حد سے زیادہ استعمال اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور عالمی فوجداری قانون کے خلافِ ضرورت کڑے اطلاق سے بھی بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ممالک کی جانب سے ایسے حالات میں بھی سرحد پار عسکری کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں جو اپنے دفاع کے حق سے متعلق بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بہت سے ممالک دہشت گردی کی بنیادی وجوہات بشمول انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونا بھی عام ہے۔ 

اقوام متحدہ کی ذمہ داری

بین سول کا کہنا ہے کہ افسوسناک طور پر اس مسئلے کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے جو انسداد دہشت گردی قوانین کو مضبوط بنانے کے لیے ایسی آمرانہ حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے جن ممالک میں قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا یا حقوق برقرار نہیں رکھے جاتے۔

انہوں نے اصرار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو انسداد دہشت گردی کے مسئلے پر سول سوسائٹی کے ساتھ بامعنی مشاورت کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ 

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت، داخلی تقسیم اور انتہاپسندی میں اضافے، ارضی سیاسی مسابقت، سلامتی کونسل کی بے عملی اور سوشل میڈیا سمیت نئے ذرائع ابلاغ کی آمد کے باعث انسداد دہشت گردی کے عمل میں انسانی حقوق کو لاحق خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ 

سوشل میڈیا پر غیرانسانی سلوک، بدگوئی، تشدد کی ترغیب اور غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کے باعث یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہو گیا ہے۔ممالک کو انسانی حقوق کے حوالے سے خالی خولی باتیں کرنے کے بجائے انہیں انسداد دہشت گردی کے تمام اقدامات کی بنیاد بنانا چاہیے۔

امریکی شہر نیو یارک میں مظاہرین نسل پرستی اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
UN News/Daniel Dickinson
امریکی شہر نیو یارک میں مظاہرین نسل پرستی اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

خصوصی اطلاع کار کی ترجیحات

بین سول نے گزشتہ برس نومبر میں یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔ وہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا سول سوسائٹی کے خلاف استعمال روکنے کے لیے اپنے پیشرو کی کوششوں کو بھی جاری رکھیں گے۔ 

انہوں نے اپنی تین سالہ مدت کے لیے ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ یقینی بنانے پر توجہ دیں گے کہ علاقائی ادارے انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنائیں۔ 

دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تمام انتظامی اقدامات انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھائے جائیں۔ انسداد دہشت گردی کے عمل میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی صورت میں ممالک سے جواب طلبی ہونی چاہیے جبکہ متاثرین کے نقصان کا مکمل اور موثر ازالہ یقینی بنایا جائے۔

بین سول داعش کے خلاف جنگ میں گرفتار اور قید کیے گئے 70 ہزار افراد اور گوانتانامو بے کے قیدیوں کے تحفظ اور ان کی وہاں سے منتقلی کے لیے کوششیں کریں گے۔ وہ انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے کام میں انسانی حقوق کی پاسداری، اس مسئلے کے متاثرین کا تحفظ اور اس کام میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال باضابطہ بنانے کے لیے بھی کام کریں گے۔