انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جنگلی حیات کے تحفظ میں اختراعی طریقہ کار مطلوب، یو این چیف

وسطی امریکہ کے جنگلات میں پایا جانے والا مکڑی بندر (spider monkey) جسے سیاہ دست بندر بھی کہا جاتا ہے۔
Unsplash/Alexander Schimmeck
وسطی امریکہ کے جنگلات میں پایا جانے والا مکڑی بندر (spider monkey) جسے سیاہ دست بندر بھی کہا جاتا ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ میں اختراعی طریقہ کار مطلوب، یو این چیف

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ انسانی سرگرمیوں نے جنگلی حیات کو بربادی کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اسے تحفظ دینے کے لیے انسان کو اپنی اختراعی صلاحیتوں سے کام لینا ہو گا۔

جنگلی حیات کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ موسمیاتی ابتری، آلودگی، مساکن کے نقصان اور قدرتی وسائل کے استحصال کے باعث پودوں اور جانوروں کی لاکھوں انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں۔

Tweet URL

اس صورتحال سے دنیا بھر کے اربوں لوگوں کی صحت اور زندگی کو بھی براہ راست خطرات لاحق ہیں۔ ایسے خطوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ 

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ انسان کا انحصار فطرت پر ہے اور اسے ثابت کرنا ہو گا کہ فطرت بھی انسان پر انحصار کر سکتی ہے۔ 

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال

اقوام متحدہ کے زیراہتمام جنگلی حیات کا عالمی دن ہر سال 3 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کے حوالے سے آگاہی کو فروغ دینا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو ذمہ دارانہ، پائیدار اور منصفانہ انداز میں استعمال کر کے جنگلی حیات کو لاحق خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہی امسال اس دن کا خاص موضوع ہے۔ خطرات سے دوچار جانوروں کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ کا استعمال پہلے ہی جاری ہے۔ اسی طرح جنگلی حیات کی ہجرت اور زمین کے استعمال سے متعلق معلومات سے جانوروں کو تحفظ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کوئی جادو کی چھڑی نہیں جو پلک جھپکتے میں مسائل حل کر دے گی۔ جنگلی حیات کو خطرے کی زد سے باہر لانے اور مںصفانہ و مستحکم مستقبل کی تعمیر کے لیے ممالک، کمپنیوں اور لوگوں کو مرتکز کوششیں کرنا ہوں گی۔ 

حیاتیاتی تنوع پر سرمایہ کاری

انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ رواں سال 'مستقبل کی کانفرنس' میں رکن ممالک ایسے طریقوں پر بات چیت کریں گے جن کی بدولت ماحولیاتی تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ حد سے زیادہ ماہی گیری اور جنگلات کے کٹاؤ سے جی ڈی پی تو بہتر ہو جائے گا لیکن قدرتی ماحول پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ان طریقوں سے ایسی چیزوں کی جانچ میں مدد ملے گی جو انسان اور ماحول کے لیے واقعتاً اہم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک میں حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ تمام حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نئے قومی موسمیاتی منصوبے تخلیق کریں جو عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے کے ہدف سے ہم آہنگ ہوں۔

قومی سطح پر ایسی حکمت عملی کا ہونا بھی ضروری ہے جس کی بدولت حیاتیاتی تنوع سے متعلق کُن مِنگ۔مانٹریال معاہدے پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔

انہوں نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی لانے، خود کو موسمی شدت کے مطابق ڈھالنے، آلودگی کی روک تھام اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ اس میں حیاتیاتی تنوع کو تحفظ دینے میں قدیمی مقامی باشندوں کے کردار کا اعتراف کرنا بھی شامل ہے۔