انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ میں قحط ٹلتا نظر نہیں آرہا، سلامتی کونسل کو بریفنگ

غزہ میں منڈلاتے قحط پر سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔
UN Photo/Loey Felipe
غزہ میں منڈلاتے قحط پر سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔

غزہ میں قحط ٹلتا نظر نہیں آرہا، سلامتی کونسل کو بریفنگ

امن اور سلامتی

سلامتی کونسل کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیوں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد قحط کا شکار ہونے کے قریب ہیں۔

غزہ میں غذائی قلت کے مسئلے پر بات چیت کے لیے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت علاقے میں تمام 22 لاکھ لوگوں کو خوراک کی ضرورت ہے۔ بچوں کو بدترین سطح کی غذائی قلت کا سامنا ہے جس کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ دو سال عمر کے ہر چھ میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کی صورت میں 'ڈبلیو ایف پی' غزہ میں اپنی امدادی کارروائیوں کے حجم اور وسعت میں فوری اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ خوراک اور دیگر امدادی سامان کی مقدار میں بڑے پیمانے پر اضافے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ 

ان مقاصد کے لیے امدادی عملے کو محفوظ اور فعال ماحول مہیا کیا جائے، اشدود اور کرنی کی بندرگاہیں کھولی جانی چاہئیں اور امدادی سرگرمیوں کی اطلاع دینے اور رابطوں کا نظام فعال ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو شمالی غزہ میں قحط کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔

رفح میں بچے خوراک ملنے کے منتظر ہیں۔
© UNICEF/Abed Zagout

غذائی نظام کی تباہی

'ایف اے او' کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل موریزو مارٹینا نے کونسل کو بتایا کہ غزہ کے 378,000 لوگوں کو شدید درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 15 فروری تک جنگ میں 46.2 فیصد زرعی علاقے کو نقصان ہوا تھا، بڑی تعداد میں بھیڑیں ہلاک ہو گئیں اور ڈیری فارم تباہ ہو گئے۔ 

انہوں نے غزہ کے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنے والے ماہی گیری کے شعبے کی تباہی سے لے کر فضائی حملوں یا پانی اور چارے کی قلت کے باعث مویشیوں کی ہلاکت تک اس جنگ کے بدترین اثرات کی بابت خبردار کیا۔

زراعت کا شدید نقصان

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے نائب رابطہ کار رامیش راجاسنگھم نے سفیروں کو بتایا کہ غزہ کی تمام تر آبادی کو بقا کے لیے انتہائی محدود مقدار میں دستیاب انسانی امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ عسکری کارروائیوں، عدم تحفظ اور ضروری اشیا کی غزہ آمد پر وسیع تر پابندیوں نے خوراک کی پیداوار اور زراعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 

سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور عالمی برادری کے فوری اور مرتکز اقدامات کے بغیر حسب ضرورت امدادی اقدامات ممکن نہیں ہوں گے۔ اس حوالے سے ارکان کو بھیجے گئے قرطاس ابیض میں درکار اقدامات کے بارے میں سفارشات دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 576,000 افراد قحط کے دھانے پر ہیں۔ جنگ اور امداد کی رسائی میں رکاوٹوں کے باعث یہ خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں زیادہ اقدامات ممکن دکھائی نہیں دیتے کیونکہ جنگ جاری ہے اور خدشہ ہے کہ یہ جنوبی غزہ کے گنجان ترین علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔ 

انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالات میں بہتری لانے کے اقدامات نہ کیے گئے تو غزہ میں قحط کو روکا نہیں جا سکے گا اور جنگ مزید جانیں لے گی۔

بھوک کا بطور ہتھیار استعمال

اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل سفیر امر بن جامہ نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو بمباری اور بھوک سے ہلاکت کے مابین انتخاب کے ہولناک المیے کا سامنا ہے۔ اسرائیل بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کونسل کی قراردادیں اس صورتحال کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

غزہ پر اس وقت جاری حملہ حماس کے خلاف جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کے لیے اجتماعی سزا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی گویا اسرائیل کے لیے فلسطینی آبادی کو ہلاک کرنے اور اسے بھوکا مارنے کا اجازت نامہ ہے۔ کونسل کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرے کیونکہ اس معاملے میں بے عملی شریک جرم ہونے کے مترادف ہو گی۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرٹ وڈ۔
UN Photo/Manuel Elías

'اسرائیل سرحدی راستے کھولے'

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرٹ وڈ نے کہا کہ امریکہ غذائی بحران پر بات چیت کا خیرمقدم کرتا ہے اور غذائی تحفظ بڑھانا واشنگٹن کی دیرینہ ترجیح ہے۔ 

انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں امداد کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے سرحدی راستے کھولے، ضرورت کے مطابق امداد کی فراہمی اور اس کی غزہ بھر میں تقسیم ممکن بنانے کی اجازت دے۔ 

غزہ کے سرحدی شہر رفح میں جمع دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگی کو لاحق خدشات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اس معاملے میں مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے ہسپتالوں اور سکولوں جیسے مقامات کی آڑ لینا ناواجب اقدام ہے اور متحارب فریقین کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی پابدی کریں۔ موجودہ حالات میں رفح میں کوئی بڑی عسکری کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

'انرا' کے وسائل کی بحالی کا مطالبہ

چین کے سفیر ژانگ جن نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ (انرا) ان لوگوں کے لیے زندگی کی ضمانت ہے۔ انہوں ادارے کے خلاف الزامات پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدرانہ تحقیقاتی عمل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بھی اس میں تعاون کرے۔ 

انہوں نے عالمی برادری اور بڑے عطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ ادارے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی فوری بحال کریں۔

چین کے سفیر نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا کہ وہ غزہ میں زیادہ سے زیادہ امداد کی بلارکاوٹ فراہمی ممکن بنانے کے لیے زمینی، سمندری اور فضائی راستے کھولے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین غزہ کے تنازع کا خاتمہ کرنے اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کام کرتا رہے گا۔

فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریوئیر۔
UN Photo/Manuel Elías

امداد میں رکاوٹ ناقابل قبول: فرانس

فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویے نے کونسل کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واضح ہنگامی حالات کے باوجود لوگوں کو ضرورت کے مطابق مدد میسر نہ ہونا ناواجب ہے۔ فرانس نے گزشتہ روز اردن کے تعاون سے غزہ میں فضا سے براہ راست امدادی سامان گرایا۔ اس کے علاوہ مصر کے ہسپتالوں میں زیرعلاج فلسطینیوں کو مدد دینے کے لیے امدادی سامان کی نئی کھیپ بھی بھیجی گئی ہے۔

انہوں ںے کہا کہ ان کے ملک کا واضح موقف ہے کہ رفح میں زمینی حملے کے نتیجے میں مزید بڑے پیمانے پر انسانی تباہی برپا ہونے کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی سفیر باربرا وڈوارڈ۔
UN Photo/Manuel Elías

برطانیہ کا 3 نکاتی منصوبہ

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی سفیر باربرا وڈوارڈ نے کہا کہ غزہ کے مایوس کن حالات سے نمٹنے کے لیے تین اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تمام فریقین کو یہ جنگ فوری بند کرنا ہو گی۔

دوسری بات یہ کہ کونسل کو اسرائیل پر زور دینا ہو گا کہ وہ مزید مدد کی فراہمی اور اسے غزہ بھر میں تقسیم کرنے میں سہولت دے۔

تیسرے اقدام کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کو تحفظ اور اپنے کام کے لیے درکار ذرائع تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے لڑائی میں فوری وقفے اور پھر پائیدار جنگ بندی کی جانب پیش رفت کے لیے زور دیا۔

اسرائیل کے نائب مستقل نمائندے بریٹ جوناتھن ملر۔
UN Photo/Manuel Elías

مزید راہداریاں کھولنے کا منصوبہ: اسرائیل

اسرائیل کے نائب مستقل نمائندے بریٹ جوناتھن ملر نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں، اور کرم شالوم اور رفح کراسنگ پر امداد کے داخلے میں آسانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مزید سرحدی راہداریاں کھولنا بھی زیر غور ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سلامتی کونسل میں حماس کے جھوٹ کا پرچار ہو رہا ہے اور امداد کو مؤثر طریقے سے تقسیم کرنے میں اقوام متحدہ کی نااہلی سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی سفارتکار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کا ملک سرحدوں پر کھڑے ٹرکوں کو نہیں روک رہا اور یہ کہ امداد کی ترسیل میں تاخیر اقوام متحدہ کی غلطی ہے۔

بریٹ جوناتھن ملر نے تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ ان کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑے۔

فلسطینی ریاست کے مستقل مبصر ریاض منصور۔
UN Photo/Loey Felipe

قحط شروع ہو چکا ہے: فلسطین

فلسطینی ریاست کے مستقل مبصر ریاض منصور نےسلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ غزہ میں قحط کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے صورتحال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کے لیے رک کر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ’بدتر صورتحال‘ کا حقیقی معنی کیا ہے۔ ’لوگ ملبے، دھول، اور کچرے کے ڈھیر سے کھانے پینے کی اشیاء تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیل اس انسانی المیے کا معمار ہے، جس نے جان بوجھ کر غزہ کے تئیس لاکھ فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

روسی مستقل مندوب ویزلے نیبنزیا۔
UN Photo/Loey Felipe

سلامتی کونسل پابندیاں لگا سکتی ہے: روس

روسی سفیر ویزلے نیبنزیا نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امداد کاروں کی طرف سے پیش کیے گئے ’سفید نوٹ‘ کو پڑھ کر رگوں میں خون جم جاتا ہے۔ انہوں کہا کہ غزہ میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر خوراک کی کمیابی اور بیماریوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی دستیابی مسئلہ نہیں ہے اور کونسل کے ارکان کچھ ہفتے قبل رفح کراسنگ کے دورے کے دوران خود یہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ’مسئلہ نوکر شاہی کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں ہیں جو امداد کی ترسیل میں تاخیر کا سبب بن رہی ہیں۔‘

ویزلے نیبنزیا نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں قحط کو روکنے کے لیے فوری جنگ بندی ضروری ہے اور اس کے لیے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی۔

روسی سفیر نے غزہ پر مجوزہ امریکی قرارداد کے مسودے کو ’قتل کرنے کا اجازت نامہ‘ قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل کے ارکان سے کہا کہ وہ اسے مسترد کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جب سلامتی کونسل کو پابندیاں لگانے پر غور کرنا چاہیے۔

امریکی اور روسی نمائندوں میں گرما گرمی

روسی سفیر کے بیان کے بعد ان کے اور امریکی مندوب کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے کہا کہ روس کسی بھی ملک پر تنقید کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جب کہ وہ یوکرین پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس کے جواب میں ویزلے نیبنزیا نے کہا کہ غزہ اور یوکرین کے حالات کا موازنہ کرنے پر امریکہ کو شرم آنی چاہیے۔

عراق اور دوسرے ممالک پر امریکی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے روسی سفیر نے کہا کہ سلامتی کونسل کو امریکہ اور روس کے درمیان میدان جنگ نہیں بننا چاہیے۔