انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شام: یو این خصوصی ایلچی کا مشرق وسطیٰ میں تناؤ فوری ختم کرنے پر اصرار

بمباری میں گھر بار تباہ ہو جانے پر لوگ شمال مغربی شام میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں ٹھکانہ ملنے کے منتظر ہیں۔
© OCHA/Bilal Al Hammoud
بمباری میں گھر بار تباہ ہو جانے پر لوگ شمال مغربی شام میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں ٹھکانہ ملنے کے منتظر ہیں۔

شام: یو این خصوصی ایلچی کا مشرق وسطیٰ میں تناؤ فوری ختم کرنے پر اصرار

امن اور سلامتی

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گیئر پیڈرسن نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے اور خانہ جنگی سے شامی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ علاقائی کشیدگی سے شام کے تنازعے میں مزید شدت آئی ہے جو ہر سال مزید پیچیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

گیئر پیڈرسن نے شام میں شہریوں اور شہری تنصیبات کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں سے نمٹنے کے اقدامات میں بین الاقوامی قانون کو مدنظر رکھنا اور شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دینا ضروری ہے۔

Tweet URL

فضائی حملے اور انسانی نقصان

گیئر پیڈرسن نے پورے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی عمل میں آنی چاہیے۔ انہوں نے شام میں کشیدگی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت بھی واضح کی۔

رواں ماہ شام پر متعدد فضائی حملے ہوئے جن کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان میں حُمہ اور دمشق کے رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں متعدد شہریوں اور عسکری اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئیں جن میں ایران کے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے فوجی مشیر بھی شامل تھے۔ 

امریکہ نے بھی اردن میں اپنے فوجیوں پر مہلک ڈرون حملوں کے بعد شام اور عراق میں ایران سے تعلق رکھنے والے اہداف پر جوابی حملے کیے ہیں۔ 

گیئر پیڈرسن نے بتایا کہ رواں ماہ شمالی شام میں کئی محاذوں پر جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ توپ خانے سے گولہ باری، راکٹ حملوں اور نشانہ بازوں کی فائرنگ کے ساتھ حکومتی افواج اور شدت پسند جنگجو گروہ حیات تحریر الشام کی جانب سے ڈرون حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر وسطی اور شمال مشرقی علاقوں میں داعش کے حملوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی شام میں بدستور عدم استحکام کی صورتحال جہاں متواتر پُرتشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

دستوری کمیٹی کا تعطل

خصوصی نمائندے نے سلامتی کونسل میں سفیروں کو شام کی دستوری کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے اپنی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔ اس کمیٹی میں حکومت، حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں جو شام کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لیے جنیوا میں ملاقات کرتے ہیں۔

اس کمیٹی کا آخری اجلاس جون 2022 میں ہوا تھا۔ گزشتہ جولائی کو ہونے والا نوواں اجلاس روس کے وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد معطل کر دیا گیا کہ ان کا ملک سوئزرلینڈ کو غیرجانبدار نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد شام کی حکومت نے بھی جنیوا میں بات چیت سے انکار کر دیا تھا۔ 

اگرچہ اس اجلاس کے لیے متعدد دیگر مقامات تجویز کیے جا چکے ہیں اور پیڈرسن نے نیروبی میں اقوام متحدہ کے دفتر میں اجلاس منعقد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ تاہم فی الوقت کسی جگہ پر اتفاق نہیں ہو سکا۔

انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ کسی نئے مقام پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئندہ اجلاس جنیوا میں ہی منعقد کیا جائے۔ پیڈرسن نے بتایا کہ وہ اپریل میں نوویں اجلاس کے لیے کمیٹی کے ارکان کو دعوت نامے جاری کریں گے۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گیئر پیڈرسن ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس کو اپنی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
UN Photo/Loey Felipe
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گیئر پیڈرسن ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس کو اپنی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔

امدادی ضروریات میں اضافہ

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے بھی کونسل سے خطاب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں گزشتہ سال آنے والے زلزلوں کے طویل مدتی اثرات اور وسیع تر انسانی بحران سے سے نمٹنے کے لیے مزید مدد کی ضرورت ہے۔ 

اس وقت ملک میں 16.7 ملین افراد یا تقریباً تین چوتھائی آبادی کو انسانی امداد درکار ہے جو ملک میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ضرورت مندوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 

انہوں نے شامی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو ترکیہ کے ساتھ دو سرحدی راستوں سے مزید تین ماہ تک امداد فراہم کرنے کی اجازت دینے کا خیرمقدم کیا۔

مالی وسائل کی اشد ضرورت

2023 میں اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے ان سرحدی راستوں سے امدادی سامان کے پانچ ہزار ٹرک شام میں بھیجے تھے۔ رواں سال جنوری سے ایسے 40 امدادی مشن سرحد پار جا چکے ہیں۔ 

مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ اضافی سرحدی راستے کھولنے سے ماہانہ 25 لاکھ لوگوں کو ضروری امداد مہیا کی گئی اور علاج معالجے کے 10 لاکھ اقدامات ممکن ہوئے۔ 

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ برس شام کے لیے طلب کردہ امدادی وسائل کا 40 فیصد ہی حاصل ہو پایا تھا۔ یہ اس تنازع کے آغاز کے بعد اب تک شام کو ملنے والی کم ترین سالانہ مدد ہے۔