انسانی کہانیاں عالمی تناظر
ورلڈ بینک کے مطابق 2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

کاپ28: پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ

© UNICEF/Saiyna Bashir
ورلڈ بینک کے مطابق 2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

کاپ28: پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس 'کاپ 28' میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی انصاف پر مبنی اقدامات ضروری ہیں اور انہیں نقصان و تباہی کے فنڈ سے مالی وسائل کی بروقت فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔

یہ بات اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس میں 'موسمیاتی انصاف: امید، استحکام اور سلامتی کا نیا بیانیہ' کے موضوع پر ایک مباحثے میں کہی گئی۔

Tweet URL

اس موقع پر مقررین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے غیرمساوی اثرات کی بدولت یہ چند تکنیکی اقدامات کا متقاضی ایک مادی مسئلہ ہی نہیں رہا بلکہ اب یہ مساوات اور انصاف کا معاملہ بھی بن گیا ہے۔

دبئی میں جاری کانفرنس کے 9ویں روز اس مباحثے کا انعقاد پاکستان کے پویلین میں ہوا۔ اس میں مقررین نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق قانون و پالیسی میں مساوات اور انصاف کو یقینی بنانے کے اقدامات، موسمیاتی انصاف کے فروغ میں عدلیہ کے کردار اور موسمیاتی انصاف، مالیات اور کاروبار کے باہمی تعلق پر اظہار خیال کیا۔

موسمیاتی تبدیلی کی عدم مساوات

اس موقع پر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے کوئی فرد یا ملک محفوظ نہیں۔ تاہم ترقی پذیر ممالک اس سے غیرمساوی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ 

پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس ملک کو تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر بربادی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا وہ خود مشاہدہ کر چکی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں زندگی، روزگار اور صحت کے لیے تباہ کن خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ خطرہ حقیقی ہے، لہٰذا ان ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مستحکم اقدامات میں مدد دینے کے لیے انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسیوں سے کام لینا ہو گا۔

بے عملی اور ناانصافی

مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کی سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی بے عملی اور ناانصافی موسمیاتی بحران کے بڑے محرکات ہیں۔ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی روش ترک کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کریں جن کا اس بحران کو لانے میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پیرس معاہدے کا مطلب بے عملی اور ناانصافی سے نمٹنا بھی ہے۔ تاہم پچھلے آٹھ سال میں اس معاملے میں خاطرخواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے اقوام متحدہ کا نعرہ ہے کہ 'کوئی پیچھے نہ رہے' لیکن 'آئی پی سی سی' کی حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نصف دنیا کو پہلے ہی پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سبھی کے لیے صحت مند اور پائیدار مستقبل یقینی بنانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف منصفانہ انداز میں عالمگیر تعاون ضروری ہے۔

مقررین میں شامل پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے موسمیاتی انصاف کے فروغ میں عدلیہ کے کردار پر بات کی۔ ہائی کورٹ کے جج جواد حسن نے انصاف، مالیات اور کاروبار کے باہمی تعلق میں موسمیاتی انصاف اور مساوات کے مسائل کو اجاگر کیا۔

اس بات چیت کا مقصد مسائل کو سامنے لانا، متعلقہ مہارتوں کے تبادلے اور موسمیاتی انصاف کے اصولوں کی اہمیت واضح کرنا تھا۔ کانفرنس کے پہلے روز نقصان و تباہی کے فنڈ کو فعال کرنے پر اتفاق رائے کی بدولت ایسے مباحثوں کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوا ہے۔

دبئی میں کاپ28 کانفرنس کے موقع پر مظاہرین موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے ہونے والے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Kiara Worth
دبئی میں کاپ28 کانفرنس کے موقع پر مظاہرین موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے ہونے والے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی بھاری قیمت

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کہہ چکے ہیں کہ گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اسے موسمیاتی تبدیلی کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق 2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ملک گزشتہ دو دہائیوں میں موسمی شدت کے 152 بڑے واقعات کا سامنا کر چکا ہے اور گلیشیئر پھٹنے سے سیلاب کی شرح 300 گنا بڑھ گئی ہے۔ 

پاکستانی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے چند روز قبل 'کاپ28' میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے جن نقصانات اور تباہی کا سامنا ہے ان کے ازالے کے لیے انہیں فوری طور پر مالی وسائل فراہم کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مالی وسائل کی فراہمی قرضوں یا ترقیاتی گرانٹ کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے کیونکہ غریب ممالک پر پہلے ہی قرضوں کا بوجھ ہے۔

یاد رہے کہ کاپ28 کے پہلے روز 'نقصان اور تباہی کے ازالے کے فنڈ' کو فعال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس فنڈ کے تحت ترقی یافتہ ممالک غریب ملکوں کو سالانہ 100 ارب ڈالر مہیا کریں گے۔