انسانی کہانیاں عالمی تناظر
موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں خشک سالی اور سیلابوں جیسی شدید موسمی کیفیات کا سبب بن رہی ہے۔

جانیے: موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس کاپ 28 کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

© WMO/Fouad Abdeladim
موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں خشک سالی اور سیلابوں جیسی شدید موسمی کیفیات کا سبب بن رہی ہے۔

جانیے: موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس کاپ 28 کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

موسم اور ماحول

عالمی حدت متواتر ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہے اور سال کا اختتام قریب آتے ہی تمام نگاہیں متحدہ عرب امارات پر مرکوز ہیں جہاں دبئی میں 30 نومبر سے 12 دسمبر تک عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مستقبل کا پُرعزم لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے جمع ہوں گے۔

اس بارے میں درج ذیل باتوں سے آگاہی اہم ہے۔

 'کاپ' کیا ہے؟ 

اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسیں دراصل حکومتی سطح پر ہونے والے سالانہ عالمی اجتماعات ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات زیرغور آتے ہیں۔ انہیں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے فریقین (یو این ایف سی سی سی) کی کانفرنس کی مناسبت سے 'سی او پی' یا 'کاپ' بھی کہا جاتا ہے۔ 

'یو این ایف سی سی سی' کنونشن 21 مارچ 1994 کو منظور کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد موسمیاتی نظام میں انسانوں کی 'خطرناک' مداخلت کو روکنا تھا۔ 

آج دنیا کے 198 ممالک اس کے فریق ہیں اور اس طرح تقریباً پوری دنیا کے پاس اس کی رکنیت ہے۔ 2015 میں منظور کیا جانے والا پیرس معاہدہ اسی کنونشن کا توسیعی حصہ ہے۔ 

'کاپ 28' میں 60 ہزار سے زیادہ مندوبین کی شرکت متوقع ہے جن میں 'یو این ایف سی سی سی' کے رکن ممالک، صنعتی شعبے کی نمایاں شخصیات، نوجوان کارکن، قدیمی مقامی لوگوں کے نمائندے، صحافی اور دیگر شامل ہیں۔ 

یہ کانفرنس موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے لیے ایک اہم موقع ہے۔ 

'کاپ 28' یہ جائزہ لینےکا موقع ہو گا کہ دنیا موسمیاتی بحران پر قابو پانے کی جدوجہد میں کہاں کھڑی ہے اور اسے اپنی سمت درست کرنے کی کس حد تک ضرورت ہے۔

'کاپ 28' میں 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں واضح کمی لانے کے اقدامات پر عملدرآمد کا جائزہ بھی لیا جانا ہے۔

کاپ 27 گزشتہ سال شرم الشیخ، مصر، میں منعقد ہوئی تھی۔
UN Video/ Runa A
کاپ 27 گزشتہ سال شرم الشیخ، مصر، میں منعقد ہوئی تھی۔

'کاپ 28' کیوں اہم ہے؟

2015 میں کاپ 21 کے موقع پر پیرس موسمیاتی معاہدے کی منظوری کے بعد ہونے والی ایسی کانفرنسوں میں دنیا کی توجہ اس معاہدے کے اہم ترین ہدف پر عملدرآمد پر رہی ہے۔ یہ ہدف عالمی حدت میں اوسط اضافے کو 2 ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنا اور مستقبل میں اسے قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنا ہے۔

پیرس میں ہونے والی 'کاپ 21' میں یہ معاہدہ طے پایا، کیٹووائس میں 'کاپ 24' اور گلاسگو میں منعقدہ 'کاپ 26' میں اس معاہدے پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی کی گئی اور پھر شرم الشیخ میں ہونے والی 'کاپ 27' میں دنیا نے اس پر عملدرآمد کا رخ کیا۔ 

اب 'کاپ 28' ایک فیصلہ کن موڑ ہو گا جس میں ممالک ناصرف اس بات پر اتفاق کریں گے کہ کون سے مضبوط تر موسمیاتی اقدامات اٹھانا ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کریں گے کہ انہیں کیسے کارآمد بنانا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی لانے، اس سے مطابقت پیدا کرنے، غریب ممالک کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور موجودہ منصوبوں میں ضروری تبدیلی لانے کے حوالے سے 'کاپ 28' کی خاص اہمیت ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اب تک اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ 'کاپ 26' (گلاسگو) میں شروع ہوا تھا جو دبئی میں مکمل ہو گا۔

اس کا مقصد یہ جاننا ہےکہ مزید کون سے اقدامات کی ضرورت ہے اور ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف پہلے سے زیادہ پُرعزم اور تیزرفتار منصوبے شروع کرنے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ 

اسی لیے 'کاپ 28' میں جو فیصلے لیے جائیں گے وہ پیرس معاہدے کو نتیجہ خیز بنانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے 24 نومبر کو انٹارکٹکا کا دورہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کی سنگین علامات کا براہ راست مشاہدہ کیا۔

کمبوڈیا میں طلباء آبی گزرگاہوں کے ساتھ شجر کاری کر رہے ہیں تاکہ نمدار زمین پر جنگلوں کی بحالی ممکن ہو سکے۔
© UNDP/Manuth Buth
کمبوڈیا میں طلباء آبی گزرگاہوں کے ساتھ شجر کاری کر رہے ہیں تاکہ نمدار زمین پر جنگلوں کی بحالی ممکن ہو سکے۔

موسمیاتی تبدیلی: خدشات اور خطرات

موسمیاتی تبدیلی سے کرہ ارض اور انسانوں کی صحت خطرے میں ہے۔ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے 'کاپ 28' سے پہلے جنوبی براعظم انٹارکٹکا کے دورے میں خبردار کیا کہ اس برفانی خطے کو سویا ہوا جن کہا جاتا ہے لیکن موسمیاتی ابتری نے اسے بیدار کر دیا ہے۔

اس وقت قطب جنوبی کی برف معلوم تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ نئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج قطب جنوبی میں سمندری برف کا حجم اس عرصہ کی سالانہ اوسط کے مقابلے میں 15 لاکھ مربع کلومیٹر کم ہے۔ یہ رقبہ پرتگال، سپین، فرانس اور جرمنی کے مشترکہ رقبے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے تباہ کن اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ انٹارکٹکا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہیں تک محدود نہیں رہےگا۔ یہاں ہزاروں میل دور جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اثرات دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں۔

سو سال سے زیادہ عرصہ سے معدنی ایندھن جلائے جانے اور توانائی و زمین کے غیرپائیدار استعمال کی بدولت عالمی حدت میں اضافہ قابل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.1 فیصد زیادہ ہو گیا ہے۔ جوں جوں عالمی حدت بڑھ رہی ہے، موسمی شدت کے واقعات جیسا کہ شدید گرمی کی لہروں، سیلاب، طوفانون اور ناقابل تلافی موسمیاتی تبدیلی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز میں متواتر اضافے اور زمینی ماحول میں جمع ہونے والی حدت کے باعث گزشتہ آٹھ برس کرہ ارض پر گرم ترین عرصہ تھا۔ اسی طرح ممکنہ طور پر 2023 معلوم تاریخ کا گرم ترین سال ہو گا۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ انسانیت نے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہولناک گرمی کرہ ارض اور انسانوں پر ہولناک اثرات مرتب کر رہی ہے۔ 

دنیا کی تقریباً نصف آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے مقابل انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔ 

کم ترین ترقی یافتہ، خشکی میں گھرے اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک کا اس بحران کو لانے میں بہت کم حصہ ہے۔ لیکن یہ ممالک اس مسئلے کے مہلک اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش دورہ انٹارکٹکا کے دوران برف کی تہوں کو دیکھ رہے ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش دورہ انٹارکٹکا کے دوران برف کی تہوں کو دیکھ رہے ہیں۔

دور رس موسمیاتی اقدامات کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تواتر سے یاد دہانی کرائی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف موجودہ اقدامات اس بحران کے حجم کو دیکھتے ہوئے ناکافی ہیں۔ لیکن مستقبل طے نہیں ہے اور بہتری کے لیے تبدیلی لانا اب بھی ممکن ہے۔ 

سائنس بالکل واضح ہے: عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا اور موسمیاتی تبدیلی کو بدترین صورت اختیار کرنے سے روکنا اب بھی ممکن ہے۔ تاہم اس کے لیے غیرمعمولی اور فوری اقدامات درکار ہوں گے جو درج ذیل ہیں: 

  • 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2010 کی سطح کے مقابلے میں 45 فیصد تک کمی لانا۔
  • معدنی ایندھن (تیل و گیس) سے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منصفانہ اور مساوی منتقلی۔ 
  • موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ۔ 

اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کو مالیاتی وسائل کی فراہمی کے وعدوں کی تکمیل، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر کی فراہمی اور نقصان و تباہی کے فنڈ کو فعال بنانا بھی ضروری ہے جس پر 'کاپ 27' میں اتفاق پایا گیا تھا۔ 

تاہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے سلسلے میں ہر ملک کے 'طے شدہ قومی حصے' (این ڈی سی) کے بارے میں 'یو این ایف سی سی سی' کی نومبر میں جاری کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہےکہ دنیا اس بحران پر قابو پانے کے لیے درست راہ پر نہیں ہے۔ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں اس مسئلے کے خلاف حسب ضرورت عالمی عزم دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف قومی سطح پر بنائے جانے والے مںصوبے سائنس سے غیر ہم آہنگ ہیں۔

30 نومبر سے دبئی میں شروع ہونے والی 'کاپ 28' موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اب تک کے اقدامات کا جائزہ لینے کا اہم موقع ہو گی۔

شرم الشیخ میں جب مذاکرات طول پکڑ رہے تھے تو نوجوان مظاہرین باہر کھڑے کاپ 27 کے مندوبین کو بآور کرا رہے تھے کہ ان کی توقعات کیا ہیں۔
Kiara Worth
شرم الشیخ میں جب مذاکرات طول پکڑ رہے تھے تو نوجوان مظاہرین باہر کھڑے کاپ 27 کے مندوبین کو بآور کرا رہے تھے کہ ان کی توقعات کیا ہیں۔

'کاپ 28' کے میزبان متحدہ عرب امارات کا کردار 

اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس ہر سال مختلف ملک میں منعقد ہوتی ہے۔ امسال متحدہ عرب امارات اس کانفرنس کا میزبان ہے جو 30 نومبر سے 12 دسمبر تک جاری رہے گی۔

کانفرنس کا میزبان ملک اس کے صدر کا تقرر بھی کرتا ہے جس کا کام موسمیاتی مسئلے پر بات چیت کے حوالےسے قیادت اور رہنمائی مہیا کرنا ہے۔ 

متحدہ عرب امارات کے وزیر صنعت و جدید ٹیکنالوجی ڈاکٹر سلطان الجابر کاپ 28 میں ہونے والی بات چیت کی صدارت کریں گے۔

آئندہ صدارت نے چار اہم شعبوں میں تبدیلیوں پر توجہ مرکوز رکھنے کا اعلان کیا ہے جو درج ذیل ہیں: 

  • ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کی جانب تیزرفتار منتقلی اور 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا۔ 
  • پرانے وعدوں کی تکمیل اور نئے معاہدے کے لیے طریقہ کار طے کر کے اس مسئلے کے خلاف مالی وسائل کی فراہمی کے عمل میں تبدیلی لانا۔
  • موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں فطرت، لوگوں، زندگیوں اور روزگار کو بنیادی اہمیت دینا۔ 
  • اب تک کی مشمولہ ترین 'کاپ' کے لیے کام کرنا۔

 زمین سے معدنی ایندھن نکالنے پر امدادی قیمتوں کا خاتمہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف فوری طور پر درکار اقدامات میں سے ایک ہے۔

امسال متحدہ عرب امارات اس کانفرنس کا میزبان ہے جو 30 نومبر سے 12 دسمبر تک جاری رہے گی۔
© Unsplash/Lucy M
امسال متحدہ عرب امارات اس کانفرنس کا میزبان ہے جو 30 نومبر سے 12 دسمبر تک جاری رہے گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف 'کاپ 28' کا کردار کیا ہو گا؟ 

پیرس معاہدے سے تقریباً آٹھ سال اور 2030 کے ایجنڈے کی جانب نصف عرصہ گزر جانے کے بعد 'کاپ 28' موثر موسمیاتی اقدامات کی جانب سفر شروع کرنے کا بروقت موقع ہے۔ 

اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پیرس معاہدے کے اہداف کےحصول کی جانب درست راہ پر گامزن نہیں ہے۔ تاہم امید ہےکہ 'کاپ 28' میں حکومتیں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی رفتار بڑھانے کے لیے لائحہ عمل وضع کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ 

2020 میں دنیا بھر کے ممالک نے موسمیاتی مسئلے پر قابو پانے کے لیے اپنے منصوبے پیش کیے تھے جن کا مقصد اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنا تھا۔ 

ایسے نئے منصوبے 2025 تک پیش کیے جائیں گے۔ اب تک اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے کاپ 28 میں لیے جانے والے جائزے سے بھی ان منصوبوں کو مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کانفرنس میں ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنے عزم میں اضافہ کریں، نئے اہداف مقرر کریں اور موجودہ پالیسیوں اور وعدوں کو آگے بڑھائیں۔ 

موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو دیکھا جائے تو کرہ ارض اور انسانوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ایسے میں دبئی کانفرنس موسمیاتی منصوبوں کو پُرعزم اقدامات میں تبدیل کرنے اور موسمیاتی بحران کو روکنے کے لیے فیصلہ کن موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔

معدنی ایندھن (تیل و گیس) سے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منصفانہ اور مساوی منتقلی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں اہم ہوگی۔
© Unsplash/Arvind Vallabh
معدنی ایندھن (تیل و گیس) سے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منصفانہ اور مساوی منتقلی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں اہم ہوگی۔