انسانی کہانیاں عالمی تناظر
مصر کے شہر شرم الشیخ میں کاپ 27 کانفرنس کا اختتام ہوا۔

کاپ 27 کانفرنس کا موسمیاتی ’نقصان اور تباہی‘ پر معاہدے کے ساتھ اختتام

Kiara Worth
مصر کے شہر شرم الشیخ میں کاپ 27 کانفرنس کا اختتام ہوا۔

کاپ 27 کانفرنس کا موسمیاتی ’نقصان اور تباہی‘ پر معاہدے کے ساتھ اختتام

موسم اور ماحول

مصر کے شہر شرم الشیخ میں طویل اور بھرپور مذاکرات کے بعد اتوار کی صبح موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس جسے کاپ 27 کہا گیا موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کے ’نقصان اور تباہی‘ کے ازالے کے لیے فنڈ کے قیام کے معاہدے پر اختتام پذیر ہوئی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے شرم الشیخ سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ کاپ 27 نے انصاف کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ میں ’نقصان اور تباہی‘ کے ازالے کے فنڈ کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کے مسائل پر کان دھرنے چاہیں۔

متاثرہ ممالک کے لیے فنڈ کے قیام کا مسئلہ کانفرنس کے دوران اس وقت گھمبیر شکل اختیار کر گیا تھا جب امیر ممالک اس حوالے سے پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔ اسی وجہ سے کاپ 27 جسے جمعہ کو ختم ہو جانا تھا وہ اتوار کی صبح تک جاری رہی۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ یہ کافی نہیں لیکن دنیا میں ٹوٹے ہوئے سیاسی اعتماد کو جوڑنے میں یہ معاہدہ ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگا۔

مذاکرات کاروں سے توقع تھی کہ وہ ’نقصان اور تباہی‘ سمیت دوسرے باقی ماندہ مسائل پر کانفرنس کے آخری دن جمعہ کو کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے لیکن مذکرات طویل ہوتے گئے اور آخر کار اتوار کی صبح یہ طے پا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے ایک عالمی فنڈ قائم ہونا چاہیے۔

اس فنڈ کو مالی وسائل کیسے فراہم کیے جائیں گے اس سوال پر ابھی بات چیت ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ بننے والے بڑے ممالک سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک رکھنے کے ہدف کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ جاری رہے گی

انتویو گوتیرش نے دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ترجیحات یاد دلائیں جن میں دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے، اس حوالے سے پیرس معاہدے میں طے پانے والی 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد کو قائم رکھنے اور انسانیت کو ''موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کی چوٹی سے واپس لانے'' کا عزم بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں اِسی وقت گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج سختی سے محدود کرنے کی ضرورت ہے۔'' انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کاپ نے حل نہیں کیا اور دنیا کو اب بھی موسمیاتی عزم کے حوالے سے بہت بڑا قدم اٹھانے اور توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر ''بھاری'' سرمایہ کاری کے ذریعے معدنی ایندھن پر انحصار کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر مہیا کرنے کا وعدہ پورا کرنے پر زور بھی دیا جو طویل عرصہ سے ادھورا ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو دگنا کرنے کی غرض سے واضح سمت اختیار کرنے اور قابل بھروسہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے بھی کہا۔

انہوں نے اس مقصد کے لیے کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کاروباری طریقہ ہائے کار میں تبدیلی کی اہمیت پر زور بھی دیا۔

انہوں ںے کہا کہ ''انہیں مزید خطرات مول لینا ہوں گے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مناسب قیمتوں پر نجی سرمایے کو منظم انداز سے کام میں لانا ہو گا۔

زمین بدستور ہنگامی حالت سے دوچار

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اگرچہ نقصان اور تباہی کا ازالہ کرنےکے لیے مالی وسائل کی فراہمی ضروری ہے تاہم اگر موسمیاتی بحران جزیروں پر مشتمل کسی چھوٹے ملک کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیتا ہے یا افریقہ کا کوئی پورا ملک صحرا میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

انہوں ںے کوئلے سے توانائی کے حصول کو تیزرفتار سے بتدریج ختم کرنے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع بڑھانے کے لیے ماحول دوست توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی کی شراکتیں قائم کرنے کے اپنے مطالبے کی تجدید کی اور کاپ 27 میں اپنی افتتاحی تقریر کی طرح 'موسمیاتی یکجہتی کا معاہدہ ' کرنے کا مطالبہ دہرایا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ''یہ ایک ایسا معاہدہ ہو گا جس میں تمام ممالک 1.5 ڈگری کے ہدف کی مطابقت سے اس دہائی میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی اضافی کوشش کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور نجی شعبے کے تعاون سے بڑی ترقی پذیر معیشتوں کی معاونت کے لیے مالیاتی و تکنیکی امداد اکٹھی کی جائے گی تاکہ وہ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے اپنے رفتار تیز کر سکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

شرم الشیخ میں جب مذاکرات طول پکڑ رہے تھے تو نوجوان مظاہرین باہر کھڑے کاپ 27 کے مندوبین کو بآور کرا رہے تھے کہ ان کی توقعات کیا ہیں۔
Kiara Worth
شرم الشیخ میں جب مذاکرات طول پکڑ رہے تھے تو نوجوان مظاہرین باہر کھڑے کاپ 27 کے مندوبین کو بآور کرا رہے تھے کہ ان کی توقعات کیا ہیں۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے

انتونیو گوتیرش نے اپنے ویڈیو پیغام میں واضح کیا کہ کاپ 27 کا اختتام اس انداز میں ہوا ہے کہ ہمیں ابھی ''بہت سی تیاری''کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے بہت کم وقت باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''2015 کے پیرس موسمیاتی معاہدے اور 2030 کی حتمی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو ہم نصف وقت گزار چکے ہیں۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے معاملے میں انصاف اور عزم کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ اس میں فطرت کے خلاف ''خودکش جنگ'' کے خاتمے کا عزم بھی شامل ہے کہ یہ جنگ موسمیاتی بحران میں اضافہ کر رہی ہے، انواع کا خاتمہ کیے دیتی ہے اور ماحولی نظام کو تباہ کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی حیاتی تنوع سے متعلق کانفرنس آنے والی دہائی کے لیے حیاتی تنوع کے ایک پُرعزم عالمگیر فریم ورک کی منظوری دینے کا موقع ہے۔ اس فریم ورک میں مسئلے کے فطرت پر مبنی حل اور مقامی باشندوں کے اہم کردار سے کام لیا جانا ہے۔

'میں آپ کی مایوسی میں شریک ہوں'

اقوام متحدہ کے سربراہ نے سول سوسائٹی اور ماحولیاتی کارکنوں کو بھی پیغام دیا ہے جو کانفرنس کے پہلے دن سے ہی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ''میں بھی آپ کی مایوسی میں برابر کا شریک ہوں۔''

گوتیرش نے کہا کہ نوجوانوں کی اخلاقی آواز کے زیرقیادت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے حامیوں نے تاریک ترین ایام میں اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد دی اور ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ''عوام کی طاقت دنیا میں توانائی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اسی لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے انسانی حقوق بارے پہلو کو سمجھنا اس قدر اہم ہے۔ آئندہ جنگ کڑی ہو گی اور اس کے لیے ''ہم سب کو روزانہ کی بنیاد پر جدوجہد کرنا ہو گی اور کامیابی کے لیے ہم کسی معجزے کا انتظار نہیں کر سکتے۔''

اسی جذبے کو دہراتے ہوئے کینیا سے تعلق رکھنے والی نوجوان ماحولیاتی کارکن الزبتھ واتھوٹی نے کہا کہ ''کاپ 27 بھلے ختم ہو گئی ہو لیکن محفوظ مستقبل کے لیے جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اب اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ سیاسی رہنما مانٹریال میں حیاتی تنوع سے متعلق آئندہ عالمی کانفرنس میں فطرت کو تحفظ دینے اور اس کی بحالی کے لیے ایک مضبوط عالمی معاہدے پر اتفاق کریں۔''

واتھوٹی نے مزید کہا کہ ''باہم مربوط غذائی، فطری اور موسمیاتی بحران اس وقت ہم سب کو متاثر کر رہے ہیں اور میرے ملک جیسے معاشروں کو اس بحران نے دوسروں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ عملی اقدام سے پہلے کتنی مرتبہ خطرے کی گھنٹی بجانا ہو گی؟''

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کاپ 27 کانفرنس کے موقع پر نوجوانوں کے ساتھ۔
UNFCCC/Kiara Worth
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کاپ 27 کانفرنس کے موقع پر نوجوانوں کے ساتھ۔

کانفرنس کا حاصل

کاپ 27 میں حکومتی نمائندوں، مبصرین اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت 35,000 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔

اس اجلاس کے اہم نکات میں دیگر کے علاوہ غیرریاستی اداروں کے نیٹ۔زیرو اخراج سے متعلق وعدوں پر ماہرین کے اعلیٰ سطحی گروہ کی پہلی رپورٹ کا اجرا بھی شامل ہے۔

اس رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 'ظاہری اقدمات' کی مذمت کی گئی ہے۔ اس سے مراد کسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے تحفظ ماحول سے متعلق اپنی کوششوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ اس میں نیٹ۔زیرو ہدف کے حصول کے حوالے سے کمزور وعدوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور صنعتوں، مالیاتی اداروں، شہروں اور خطوں کی جانب سے نیٹ۔زیرو ہدف کے حصول سے متعلق وعدوں کو دیانت دارانہ بنانے کے لیے لائحہ عمل مہیا کیا گیا ہے اور موسمیاتی اعتبار سے مستحکم مستقبل کے لیے عالمگیر اور منصفانہ تبدیلی کی حمایت کی گئی ہے۔

کانفرنس کے دوران اقوام متحدہ نے تمام اقدامات کے لیے بروقت انتباہ کی غرض سے ایک انتظامی عملی منصوبے کا اعلان بھی کیا جس کے تحت 2023 اور 2027 کے درمیان ابتداً 3.1 ارب ڈالر کی نئی مخصوص سرمایہ کاری کی جانا ہے جو کہ فی کس سالانہ 50 سینٹ کے برابر ہو گی۔

امریکہ کے سابق نائب صدر اور ماحولیاتی کارکن الگور نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی مدد سے 'کلائمیٹ ٹریس کولیشن' کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے ایک نئی اور غیرجانبدارانہ تفصیل بھی پیش کی۔

 اس میں مصںوعی سیارچوں کی فراہم کردہ معلومات اور مصنوعی ذہانت کو اکٹھا کر کے دنیا بھر میں 70 ہزار سے زیادہ جگہوں پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو جانچا سکتا ہے۔ ان میں چین، امریکہ اور انڈیا کی کمپنیوں کی تنصیبات بھی شامل ہیں۔ اس سے عالمی رہنماؤں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی جگہوں کی نشاندہی میں مدد ملے گی اور یہ بھی معلوم کیا جا سکے گا کہ کس جگہ سے ایسی کتنی گیسیں خارج ہو رہی ہیں۔

کاپ 27 کی مصری صدارت کی جانب سے بجلی، روڈ ٹرانسپورٹ، سٹیل، ہائیڈروجن اور زراعت جیسے پانچ بڑے شعبوں کو کاربن سے پاک کرنے کی رفتار میں تیزی لانے کے لیے ایک ماسٹر پلان بھی پیش کیا گیا۔

کانفرنس کی مصری صدارت نے 2030 تک زراعت اور خوراک کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل کی مقدار اور ان کا معیار بہتر بنانے کی غرض سے 'پائیدار تبدیلی کے لیے خوراک اور زراعت کا اقدام' (فاسٹ) بھی شروع کیا گیا۔

 یہ پہلی کاپ تھی جس میں ایک دن زراعت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا کیونکہ دنیا بھر سے خارج ہونے ولی ایک تہائی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار یہی شعبہ ہے اور اس مسئلے کے حل میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔

کاپ 27 میں اعلان کردہ دیگر اقدامات درج ذیل ہیں: