انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغان مہاجرین کی طبی ضروریات کے لیے دس ملین ڈالر درکار

پاکستان کی حکومت نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ قانونی دستاویزات کے بغیر ملک میں رہنے والے تمام غیرملکی یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں،
Mehrab Afridi
پاکستان کی حکومت نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ قانونی دستاویزات کے بغیر ملک میں رہنے والے تمام غیرملکی یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں،

افغان مہاجرین کی طبی ضروریات کے لیے دس ملین ڈالر درکار

مہاجرین اور پناہ گزین

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ پاکستان سے واپس آنے والے افغان پناہ گزینوں میں بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ ادارے نے ایسے سات لاکھ لوگوں کی طبی مدد کے لیے 10 ملین ڈالر فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔

پاکستان کی حکومت نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ قانونی دستاویزات کے بغیر ملک میں رہنے والے تمام غیرملکی یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں، بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

Tweet URL

حکومت پاکستان کے اس منصوبے کے تحت تقریباً 13 لاکھ افغانوں کی اپنے ملک کو واپسی متوقع ہے۔ 

پولیو وائرس اور وباؤں کا خدشہ

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اچانک اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کی واپسی اور دیگر متعلقہ عوامل نے صحت عامہ کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان میں بیماریاں پھوٹنے اور ملک میں داخلے کے مقامات پر پولیو وائرس کی منتقلی کے خطرات خاص طور پر اہم ہیں۔

نقل مکانی، کیمپوں میں عارضی رہائش، غیرمعیاری رہن سہن، طبی مسائل، غذائی قلت، جسمانی و ذہنی دباؤ، عدم تحفظ، شدید موسمی حالات اور طبی خدمات کے فقدان نے مسائل کو بڑھا دیا ہے۔ ان حالات میں وبائیں پھیلنے کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ 

ان عوامل سے افغانستان میں پہلے ہی کمزور طبی اور سماجی معاشی نظام پر بھاری بوجھ پڑ سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ واپس آنے والوں اور ان کی میزبان آبادیوں کے لیے سنگین مسائل کی صورت میں برآمد ہو گا۔

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہے تاکہ واپس آنے والے تقریباً 700,000 لاکھ افراد کو طبی خدمات فراہم کی جا سکیں۔

سرحد کے اطراف ہسپتالوں کا قیام

افغانستان میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر لو ڈا پینگ نے کہا ہے کہ ملک واپس آنے والے افغانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ صحت عامہ یقینی بنائی جائے۔ اس مقصد کے لیے طریقہ ہائے کار اور وسائل موجود ہونے چاہئیں تاکہ طبی خدشات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او سبھی لوگوں کی طبی ضروریات کی تکمیل یقینی بنانے کو تیار ہے۔ اس سلسلے میں خواتین، بچوں، معمر افراد اور دیگر غیرمحفوط لوگوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔ 

پاکستان سے افغانستان داخلے کے مقامات پر 'ڈبلیو ایچ او' نے طبی کارکنوں کی ٹیمیں تعینات کی ہیں۔ یہ اقدام ننگرہار اور قندھار کے علاوہ صوبہ ہرات میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ ٹیمیں بین الاقوامی طبی ضوابط 'آئی ایچ آر' (2005) کے تقاضوں کے مطابق طبی جانچ پڑتال میں مدد فراہم کریں گی۔ 

ادارے نے افغانستان کے علاقے سپن بولدک میں 30 بستر اور پاکستان کے سرحدی علاقے طورخم میں 20 بستر پر مشتمل ہسپتال قائم کرنے میں بھی مدد دی ہے جو دو ہفتوں میں فعال ہو جائیں گے۔ 

عالمی ادارہ صحت 'آئی ایچ آر' (2005) کی سفارشات کے تحت تین بڑی سرحدی گزرگاہوں پر عارضی قرنطینہ بھی بنائے گا۔