انسانی کہانیاں عالمی تناظر
گرفتاریوں اور ملک بدری سے بچنے کے لیے بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں افغان خاندان مہاجر کیمپ چھوڑ رہے ہیں۔

ملک بدری: پاکستان میں افغان مہاجرین مشکل صورتحال سے دوچار

Muhammad Faisal
گرفتاریوں اور ملک بدری سے بچنے کے لیے بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں افغان خاندان مہاجر کیمپ چھوڑ رہے ہیں۔

ملک بدری: پاکستان میں افغان مہاجرین مشکل صورتحال سے دوچار

مہاجرین اور پناہ گزین

چالیس سالہ رحمان جان چمن کے قندھاری بازار میں پھل سبزیوں کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہے۔ وہ اکتوبر 2021 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور چمن کی بستی حاجی گل شاہ میں رہنے لگے جہاں ان کے چند رشتہ دار تقریباً 35 سال سے مقیم ہیں۔ پچھلے دو سال انہوں نے اس خوف میں گزارے ہیں کہ کہیں انہیں پاکستان سے بے دخل نہ کر دیا جائے اور اب ان کا یہ خدشہ یقین میں بدلنے لگا ہے۔

رحمان جان افغانستان میں پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ ان کی گیارہ سالہ بیٹی اور آٹھ سالہ بیٹا سکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ دو سال پہلے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو انہیں اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل غیریقینی محسوس ہوا اور یہی ان کی ہجرت کا محرک تھا۔

اب ان کے بچے کلی گلدارہ باغیچہ میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے خصوصی سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ 

رحمان کی نہ تو پاکستان میں بحیثیت مہاجر رجسٹریشن ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے پاس افغان شہریت کا کارڈ ہے۔ حکومت کی جانب سے ان جیسے پناہ گزینوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیے جانے کے بعد وہ پریشان ہیں۔

’غیرقانونی‘ غیرملکیوں کی ملک بدری 

26 ستمبر 2023 کو پاکستان کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنا ہو گا، بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ حکومت کے مطابق اس فیصلے کا مقصد پاکستان میں غیرملکیوں کی موجودگی کو قانونی دائرے میں لانا ہے۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں میں 'ملک بدری کے مراکز' بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔

غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو ملک سے نکالنے کی پالیسی اگرچہ تمام غیر ملکیوں پر لاگو ہوتی ہے لیکن افغانستان سے آئے لوگ تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ 

ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات، غیرملکیوں کے مجرمانہ سرگرمیوں سے مبینہ تعلق اور ان کی موجودگی سے معیشت پر پڑنے والے ’منفی اثرات‘ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان الزام لگاتی ہے کہ افغان شہری دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں اور رواں سال ملک میں ہونے والے 24 میں سے 14 خودکش بم حملوں میں انہی کا ہاتھ تھا۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چمن میں افغان مہاجرین ملک بدری سے بچنے کے لیے رجسٹریشن مراکز پر اندارج کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔
Muhammad Faisal
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چمن میں افغان مہاجرین ملک بدری سے بچنے کے لیے رجسٹریشن مراکز پر اندارج کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔

1,750,000 پناہ گزین 

2006 سے پہلے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو قانونی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اُس برس حکومت نے انہیں رجسٹریشن کے ثبوت پر مبنی کارڈ (پی او آر) کا اجرا شروع کیا۔ اب تک یہ کارڈ انہیں ملک بدری اور ہراساں کیے جانے کے خدشے سے محفوظ رکھتا آیا ہے۔ تاہم جون 2023 کے بعد ان کی تجدید نہیں ہوئی اور اب یہ زائد المعیاد سمجھے جاتے ہیں۔ 

2017 میں حکومت نے ملک میں رہنے والے غیر رجسٹرڈ افغانوں کو افغان شہریت کے کارڈ (اے سی سی) کا اجرا شروع کیا۔ اس کا مقصد مقامی حکام کو یہ جاننے میں سہولت دینا تھا کہ ان کے علاقے میں کون رہ رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افغانوں کو شناختی دستاویزات مہیا کرنا بھی مقصود تھا۔

حکومت پاکستان کے مطابق اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اندازاً 600,000 مزید افغان شہریوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کو انہیں رجسٹر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس طرح ان کا ملک میں قیام غیرقانونی ہے اور انہیں حراست، قید اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'یو این ایچ سی آر' کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً 13 لاکھ 50 ہزار ہے۔30 جون 2023 تک کے اعدادوشمار کے مطابق، ان میں 701,358 لوگ خیبرپختونخوا، 321,677 بلوچستان، 191,053 پنجاب، 72,789 سندھ، 41,520 اسلام آباد اور 4,352 پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں رہتے ہیں۔

ان لوگوں کی تقریباً ایک تہائی تعداد ملک بھر میں قائم افغان مہاجرین کے 54 رجسٹرڈ کیمپوں میں مقیم ہے جن میں سے 43 صوبہ خیبر پختونخوا، 10 صوبہ بلوچستان اور ایک صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔

رحمان جان کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اکتوبر 2021 میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آ گئے تھے تاکہ بچوں خصوصاً بیٹی کو تعلیم دلا سکیں۔
Muhammad Faisal
رحمان جان کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اکتوبر 2021 میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آ گئے تھے تاکہ بچوں خصوصاً بیٹی کو تعلیم دلا سکیں۔

قانونی پناہ گزین کون؟

پاکستان میں قانونی قرار دیے جانے والے افغان پناہ گزینوں کو سرکاری سطح پر تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

  • 1۔ عارضی مہاجرین (ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آتے رہتے ہیں جن کے رشتہ دار ان علاقوں میں یا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں مقیم ہیں) 
  • 2۔ عبوری مہاجرین (ان میں افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں دیگر ممالک کو جانا ہے اور انہیں عارضی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے)
  • 3۔ رہائشی ویزے کے حامل افغان 

حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں غیرقانونی/غیررجسٹرڈ اور ویزے کی معیاد سے زیادہ عرصہ قیام کرنے والے لوگوں کو واپس بھیجا جائے گا۔ 

اس سے اگلے مرحلے میں افغان شہریت کے کارڈ (اے سی سی) کے حامل لوگوں کو واپس بھیجا جانا ہے۔ 

تیسرے مرحلے میں رجسٹریشن کے ثبوت پر مبنی کارڈ (پی او آر) والے افغانوں کو ان کے ملک واپس بھجوایا جائے گا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں کوٹ چندنا افغان مہاجر کیمپ کا بازار۔
Muhammad Faisal
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں کوٹ چندنا افغان مہاجر کیمپ کا بازار۔

83 ہزار افراد کی واپسی

'یو این ایچ سی آر' اور عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق یکم جنوری 2023 سے اب تک خیبرپختونخوا میں طورخم سرحد اور بلوچستان میں چمن کے سرحدی راستے سے مجموعی طور پر 83 ہزار 268 افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔

ان میں 80 ہزار 161 لوگ اپنی مدد آپ کے تحت واپس گئے، 2009 کی واپسی میں 'یو این ایچ سی آر' نے سہولت دی جبکہ 1098 لوگوں کو انتظامیہ نے جبراً واپس بھیجا۔ 

ان میں 88 فیصد لوگ غیررجسٹرڈ، 9 فیصد 'پی او آر' کارڈ اور 3 فیصد 'اے سی سی' کارڈ کے حامل تھے۔ 87 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے واپسی اختیار کر رہے ہیں۔

پاکستان فیصلہ واپس لے: یو این ایچ سی آر

پناہ گزینوں سے متعلق 1951 کے جینیوا کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول کے مطابق پناہ گزینوں کو ان کی رضامندی کے خلاف ایسی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں ان کی آزادی اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔ تاہم پاکستان ان عالمی معاہدوں کا فریق نہیں ہے۔

'یو این ایچ سی آر' نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی قانونی حیثیت سے قطع نظر، ان کی جبراً واپسی کا فیصلہ معطل کرے۔

Tweet URL

پاکستان میں ادارے کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کو سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے اور اس میں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ لہٰذا پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے افغان پناہ گزینوں کو واپسی پر خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ کسی جگہ حالات سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والوں کےپاس عام طور پر ضروری دستاویزات اور سفری اجازت نامے نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے پاکستان میں کوئی قانون یا پالیسی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے پناہ کے خواہش مند لوگوں کے پاس اپنی حیثیت/موجودگی کو باقاعدہ بنانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ اور کسی دباؤ کے بغیر ہونی چاہیے تاکہ تحفظ کے خواہاں لوگ کی حفاظت یقینی ہو۔ 

قیصر آفریدی نے کہا کہ 'یو این ایچ سی آر' نے پاکستان کو اس کی سرزمین پر آنے والے پناہ گزینوں کو سنبھالنے اور انہیں رجسٹرڈ کرنے کا طریقہ کار بنانے کے لیے مدد دینے کی پیشکش کی ہے۔ اس طرح حکومت کو ملک میں آنے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں درست آگاہی ہو گی۔

پناہ گزینوں کی گرفتاریاں

کراچی میں رہنے والے افغان مہاجر راشد اللہ کے پاس افغان شہریت کے ثبوت پر مبنی 'اے سی سی' کارڈ ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں پولیس انہیں گرفتار کر کے لے گئی ہے۔ راشد اللہ کے بھائی سید محمد کہتے ہیں کہ وہ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں لیکن انتظامیہ نے انہیں بتایا ہے کہ اس کارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے۔ 

اگرچہ وزارت برائے ریاستی و سرحدی امور (سیفران) نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ قانونی طور پر ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ تاہم 'اے سی سی' کارڈ کی معیاد میں توسیع نہ ہونے سے ان لوگوں کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ 

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور افغان پناہ گزینوں کو درپیش مسائل پر رضاکارانہ قانونی خدمات مہیا کرنے والے طارق افغان سمجھتے ہیں کہ یہ پناہ گزین پاکستان میں روزگار کمانے نہیں بلکہ افغانستان کے حالات سے جان بچا کر پاکستان آئے ہیں۔ اگر ان میں کوئی لوگ مبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہیں تو حکومت کو ان کے خلاف قانونی کارروائی ضرور کرنی چاہیے تاہم اس کے لیے تمام پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت جائز نہیں۔ 

طارق افغان 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونےکے بعد وہاں جبر سے فرار ہو کر پاکستان آنے والے فنکاروں کے مقدمات لڑ کر انہیں ملک میں پناہ دلانے میں مدد دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی ملک بدری مسئلے کا حل نہیں بلکہ حکومت کو ان کی جامع رجسٹریشن اور ملک میں ان کی موجودگی کو محفوظ و مفید بنانے کے لیے قانون سازی کرنا ہو گی۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چمن کے افغان مہاجر کیمپ میں لڑکیوں کا ایک سکول۔
Muhammad Faisal
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چمن کے افغان مہاجر کیمپ میں لڑکیوں کا ایک سکول۔

خائستہ خان کی امید

میانوالی میں کوٹ چاندنہ کے مہاجر کیمپ کا مرکزی بازار ان دنوں ویران دکھائی دیتا ہے۔ دو ہزار ایکڑ رقبے پر قائم یہ بستی صوبہ پنجاب میں افغان مہاجرین کا واحد سرکاری کیمپ ہے جسے 1980 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب افغانستان پر سابقہ سوویت یونین کے حملے کے بعد بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد شروع ہوئی تھی۔

68 سالہ خائستہ خان اس کیمپ میں کپڑے کی دکان کرتے ہیں۔ وہ 1983 میں یہاں منتقل ہوئے تھے جب ان کی عمر 28 برس تھی اور اب وہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ ہیں جن کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ ان کے پاس افغان مہاجر کی حیثیت سے رجسٹریشن کارڈ بھی موجود ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے افغانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیے جانے کے بعد بہت سے لوگ یہاں سے مختلف شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ 

خائستہ خان کا کہنا ہے کہ ان کی طرح یہاں رہنے والے افغانوں کی اکثریت بحیثیت مہاجر رجسٹرڈ ہے لیکن ایسی اطلاعات بھی سننے کو ملی ہیں جن کے مطابق انتظامیہ رجسٹر مہاجرین کو بھی ملک بدری کی غرض سے گرفتار کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کیمپ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ 

خائستہ خان کا یہ کیمپ یا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ان کی زمینوں پر قبضے ہو چکے ہیں اور وہاں صرف بھوک ہی ان کی منتظر ہو گی۔ انہیں امید ہے کہ رجسٹر پناہ گزین ہونے کے ناطے حکومت ان کے خاندان کو کچھ نہیں کہے گی اور اسی امید پر وہ کیمپ میں بیٹھے ہیں۔

رحمان جان کو بھی اب افغانستان میں روزگار ملنے اور بچوں خاص طور پر بیٹی کی تعلیم جاری رہنے کی کوئی امید نہیں، جہاں طالبان نے لڑکیوں کی پرائمری تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے حصول پر پابندی لگا رکھی ہے۔ پاکستان میں رشتہ دار اب تک انہیں تسلی دیتے آئے تھے کہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے لے گی لیکن حالیہ دنوں اپنی بستی سے درجنوں افغان خاندانوں کو واپس جاتا دیکھ کر وہ مایوسی کا شکار ہیں۔