انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ملک بدری: پاکستان بچوں اور خاندانوں کا تحفظ یقینی بنائے، یو این ادارے

پاکستان میں پناہ لیے افغان خاندان واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔
© UNHCR/Caroline Gluck
پاکستان میں پناہ لیے افغان خاندان واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔

ملک بدری: پاکستان بچوں اور خاندانوں کا تحفظ یقینی بنائے، یو این ادارے

مہاجرین اور پناہ گزین

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپسی کا حکم دیے جانے کے بعد ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ افغان پناہ گزین ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے ملک بدر کیے جانے والے افغان بچوں اور خاندانوں کے تحفظ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جمعرات کو خیبرپختونخوا میں طورخم کے راستے سے 19 ہزار 744 افراد افغانستان گئے جبکہ 26 ستمبر کو غیرقانونی تارکین وطن کو واپسی کا حکم دیے جانے کے بعد بلوچستان میں چمن کی سرحد سے مجموعی طور پر تقریباً 38 ہزار سے زیادہ افغان ملک چھوڑ گئے ہیں۔ یہ دونوں راستے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے بڑی سرحدی گزرگاہیں ہیں۔

Tweet URL

پاکستان میں سب سے زیادہ افغان پناہ گزین خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں جہاں سے جمعرات تک تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار لوگ واپس جا چکے تھے۔

اس وقت چمن اور طورخم سرحد پر افغان تارکین وطن کی بھیڑ لگی ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں لوگ اپنا مال اسباب ٹرکوں پر لاد کر سرحد پر پہنچ رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں نارویجن رفیوجی کونسل، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی اور ڈینش رفیوجی کونسل نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند روز سے روزانہ 9,000 تا 10,000 لوگ پاکستان سے افغانستان جا رہے ہیں۔ قبل ازیں یہ تعداد روزانہ تقریباً 300 تک ہوتی تھی۔ 

26 ستمبر کو پاکستان کی وزارت داخلہ نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کو یکم نومبر تک واپسی کا حکم دیا تھا۔ حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس تاریخ کے بعد ان لوگوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ 

افغان پناہ گزینوں کی پکڑ دھکڑ

26 ستمبر 2023 کو پاکستان کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنا ہو گا، بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ حکومت کے مطابق اس فیصلے کا مقصد پاکستان میں غیرملکیوں کی موجودگی کو قانونی دائرے میں لانا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے جمعے کو پاک افغان سرحد پر مزید مراکز کھول دیے ہیں۔

حکومت پاکستان کے مطابق بیمار لوگوں اور حاملہ خواتین کو واپسی میں التوا کی سہولت حاصل ہے اور واپس جانے والی افغان خواتین اور بچوں کو فنگر پرنٹ جیسی بائیو میٹرک جانچ پڑتال سے بھی استثنیٰ دیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جو لوگ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں ان کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی ہو گی اور نہ ہی انہیں زبردستی پاکستان سے واپس بھیجا جائے گا۔ 

اگرچہ حکومتِ پاکستان نے ان پناہ گزینوں کو تین مراحل میں افغانستان واپس بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور پہلے مرحلے میں صرف انہی لوگوں کو واپس بھیجا جانا ہے جو ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔

تاہم ملک بھر سے ایسے افغانوں کی گرفتاریوں اور انہیں ملک بدری کے لیے مخصوص مراکز میں بھیجنے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں جن کے پاس افغان شہریت کے کارڈ ہیں یا جن کے نام ملک میں نوآبادکاری کے لیے زیرغور ہیں۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔

ٹرکوں پر لدا ایک اففان مہاجر خاندان کا سامان دارالحکومت کابل پہنچا ہے۔
© UNHCR/Caroline Gluck
ٹرکوں پر لدا ایک اففان مہاجر خاندان کا سامان دارالحکومت کابل پہنچا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کی تشویش 

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر)، عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ پناہ گزینوں کو ان کی مرضی کے خلاف افغانستان واپس بھیجے جانے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 

اداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو شدید انسانی بحران، انسانی حقوق کے مسائل اور سخت سردی کے موسم کا سامنا ہے۔ ملک میں تقریباً تین کروڑ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ 33 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہیں۔ 

افغان پناہ گزین بچوں کو پاکستان میں نقل و حرکت کے دوران، حراستی مراکز میں موجودگی، سرحد عبور کرتے وقت اور افغان واپسی پر تحفط کے حوالے سے سنگین خدشات لاحق ہیں۔ افغانستان میں ان بچوں کی تعلیم، صحت اور خوراک و پناہ جیسی بنیادی ضروریات تک رسائی بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں یونیسف کے نمائندے عبداللہ فادل نے کہا ہے کہ ادارہ پاکستان کی حکومت سے کہتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں میں تمام بچوں کے حقوق کو برقرار رکھنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

یونیسف نے 'یو این ایچ سی آر' اور 'آئی او ایم' کے ساتھ بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے وہ پاکستان کو غیرمحفوظ بچوں، خاندانون اور پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھنے کے لیے دی جانے والی مدد میں اضافہ کرے۔ 

پاکستان میں 'آئی او ایم' کی نمائندہ میو ساتو کا کہنا ہے کہ ادارہ حکام سے اپیل کر رہا ہے کہ غیرمحفوظ لوگوں بشمول بچوں اور خاندانوں کو ایسے حالات میں زبردستی واپس نہ بھیجا جائے جہاں ان کی زندگی اور حقوق کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

'یو این ایچ سی آر' کی نمائندہ فلیپا کینڈلر نے واضح کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ، محفوظ اور منظم طور سے ہونی چاہیے اور اس دوران ان کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

پاکستان سے افغانستان پہنچنے والے لوگوں کو نقد امداد دی جا رہی ہے۔
© UNHCR/Caroline Gluck
پاکستان سے افغانستان پہنچنے والے لوگوں کو نقد امداد دی جا رہی ہے۔

'یو این ایچ سی آر' کے مراکز پر بھیڑ

ملک میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد رضاکارانہ واپسی کے لیے کوئٹہ اور پشاور میں 'یو این ایچ سی آر' کے قائم کردہ مراکز کا رخ کر رہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان واپسی میں مدد فراہم کی جائے۔ 'یو این ایچ سی آر' اور 'آئی او ایم' ان لوگوں کی مدد کے اقدامات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ 

 حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں متعدد لوگ مبینہ طور پر جنگجو گروہوں سے منسلک اور ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ بہت سے افغانوں نے غیرقانونی طریقوں سے قومی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے جن کی نشاندہی کر کے انہیں بلاک کیا جا رہا ہے۔

حکومت نے ملک بھر میں 49 ہولڈنگ سنٹر قائم کر رکھے ہیں، جہاں ایسے غیرملکیوں کو لا کر رکھا جا رہا ہے جن کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ ان مراکز سے انہیں اپنے ملک واپس بھیجنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

افغان مہاجرین کے بچے پاکستان کے سرحدی علاقے چمن میں افغانستان داخل ہونے کے منتظر ہیں۔
Asim Khan
افغان مہاجرین کے بچے پاکستان کے سرحدی علاقے چمن میں افغانستان داخل ہونے کے منتظر ہیں۔

پاکستان کی اخلاقی ذمہ داری 

پناہ گزینوں سے متعلق 1951 کے جینیوا کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول کے مطابق پناہ گزینوں کو ان کی رضامندی کے خلاف ایسی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں ان کی آزادی اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔ تاہم پاکستان ان عالمی معاہدوں کا فریق نہیں ہے۔

'یو این ایچ سی آر' اور 'آئی او ایم' کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں کو افغانستان میں تحفظ کے حوالے سے خطرات لاحق ہیں انہیں فی الوقت ملک چھوڑنے سے استثنیٰ دیا جائے۔ 'یو این ایچ سی آر اور 'آئی او ایم' نے پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن، انہیں سنبھالنے اور ملک میں تحفظ کے ضرورت مند لوگوں کی جانچ پڑتال کا طریقہ کار بنانے میں تعاون کی پیش کش کی ہے۔

پاکستان میں پناہ لیے ہوئے افغان مہاجرین وطن واپس جانے پر مجبور ہیں۔
Asim Khan
پاکستان میں پناہ لیے ہوئے افغان مہاجرین وطن واپس جانے پر مجبور ہیں۔

سپریم کورٹ چیلنج

پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے ہے کہ ملک سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا میں غیرمحفوط طبقات خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے گا۔ انہوں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی مختلف گروہ ہیں اور اسی لیے ان سے متعلق غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اور قانونی طور پر مقیم کسی غیرملکی کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

اگست 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد اندازے کے مطابق مزید چھ لاکھ افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے تھے جبکہ پاکستان میں 17 لاکھ کے قریب افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن مشتاق احمد خان، سابق رکن فرحت اللہ بابر اور ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے سابق رکن محسن داوڑ نے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کردہ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسے افغان تارکین وطن کو ملک بدر نہ کرے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔