پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ ’بدسلوکی‘ پر تُرک کو تشویش
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے پاکستان سے ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں گرفتار کیے جانے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں سے متضاد ہیں۔ فرد کی آزادی وہ بنیادی حق ہے جو ہر ایک کو بلاامتیاز میسر آنا چاہیے جن میں تمام مہاجرین بھی شامل ہیں۔
وولکر ترک تارکین وطن کی گرفتاری مخصوص حالات میں آخری اقدام ہونی چاہیے۔ لوگوں کو ایسے اقدامات کے ذریعے واپسی پر مجبور نہ کیا جائے اور بچوں اور دیگر کمزور لوگوں کے معاملے میں اس سے پوری طرح پرہیز لازم ہے۔
بدسلوکی اور لوٹ مار کی شکایات
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کو سرحد پار کرنے والے افغانوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ انہیں پاکستان کے حکام کی جانب سے بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ مقامی پولیس نے رات کے وقت ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور نقدی، زیورات، بھیڑ بکریاں اور دیگر چیزیں لے گئی۔ پولیس اہلکاروں نے باقی سامان اٹھانے اور گھر خالی کرنے کے لیے انہیں چند گھنٹوں کی مہلت دی۔ جب وہ لوگ گھر چھوڑ رہے تھے تو اسی وقت ایک بلڈوزر اسے منہدم کرنے آ رہا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے خود کو بے بس محسوس کیا اور نم آنکھوں کے ساتھ گاؤں چھوڑ دیا۔
وولکر تُرک نے کہا کہ بہت سے افغان محدود مالی وسائل کے ساتھ واپس جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے گھر اور نوکریاں چھوڑ کر پاکستان سے نکلنا پڑا۔ متعدد لوگوں کا الزام ہے کہ حکام نے ان سے رشوت بھی لی یا ان کی ملکیتی اشیا اپنے پاس رکھ لیں۔
'پاکستان وعدہ پورا کرے'
پاکستان نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں بشمول افغانوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ 15 ستمبر اور 11 نومبر کے درمیانی عرصہ میں 327,000 سے زیادہ لوگ پاکستان سے افغانستان جا چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے گرفتاری کے خوف سے ملک چھوڑا ہے۔
اگرچہ پاکستان کے حکام نے کہا ہے کہ اپنی رجسٹریشن کے ثبوت (پی او آر) پر مبنی کارڈ اور افغان سٹیزن کارڈ کے حامل لوگوں کو زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ تاہم 'او ایچ سی ایچ آر' کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے کو پورا نہیں کیا جا رہا۔
حکومتِ پاکستان نے یہ کارڈ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے تعاون سے جاری کیے تھے۔ جن لوگوں کے پاس پی او آر کارڈ ہیں انہیں حکومت پناہ گزین تسلیم کرتی ہے۔
وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ یہ نئی پیش رفت پاکستان کی جانب سے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی دہائیوں تک میزبانی کرنے کی روایت کے خلاف ہے۔
انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے جنہیں افغانستان میں مظالم، تشدد، بدسلوکی یا ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت کے عہدیدار اور فوجی حکام، نسلی و مذہبی اقلیتیں، انسانی حقوق کے محافظ، سول سوسائٹی کے کارکن اور صحافی بھی شامل ہیں۔
خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو خطرہ
افغانستان واپس جانے والی خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو خاص طور پر خطرات لاحق ہیں۔ ملکی حکام کی پالیسیوں اور احکامات نے انہیں چھٹے درجے کے بعد تعلیم جاری رکھنے سے روک رکھا ہے۔ روزمرہ اور عوامی زندگی میں ان کی شرکت پر وسیع تر پابندیاں عائد ہیں۔ خواتین بیشتر شعبوں میں کام نہیں کر سکتیں جبکہ انہیں پارکوں اور عوامی مقامات پر جانے کی بھی اجازت نہیں۔
وولکر تُرک نے پاکستان کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی انفرادی جانچ پڑتال اور بین الاقوامی قانون کے تحت درکار دیگر اقدامات تک ان کی واپسی کے پروگرام کو معطل کرے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے ان کے خلاف بدسلوکی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بھی کہا ہے۔