انسانی کہانیاں عالمی تناظر
’کلین انڈس‘ منصوبے کے تحت دریائے سندھ کے کناروں پر کچرے کی صفائی کی مہم پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے زیراہتمام شروع کی گئی ہے۔

زندہ دریا: پاکستان کے دریا سندھ سے آلودگی کم کرنے کی مہم

FAO/Pakistan
’کلین انڈس‘ منصوبے کے تحت دریائے سندھ کے کناروں پر کچرے کی صفائی کی مہم پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے زیراہتمام شروع کی گئی ہے۔

زندہ دریا: پاکستان کے دریا سندھ سے آلودگی کم کرنے کی مہم

موسم اور ماحول

پاکستان کی 80 فیصد سے زیادہ زرعی اراضی کو سیراب کرنے والے دریائے سندھ کے قدرتی ماحول کو موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے لاحق سنگین خطرات کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کی ایک منفرد مہم چلائی جا رہی ہے جس میں سکولوں کے طلبہ کا کردار نمایاں ہے۔

'کلین انڈس' کے نام سے جاری اس مہم کے تحت دریائے سندھ کے کناروں پر پھیلا کچرا اکٹھا کر کے ماحول دوست تھیلوں میں بھرا جاتا ہے اور پھر اسے مخصوص مقام پر تلف کر دیا جاتا ہے۔ 

اس کچرے میں پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈبے، پولی تھین کے بیگ، کھانے پینے کی اشیا کے خالی پیکٹ اور کئی طرح کا دیگر کوڑا کرکٹ شامل ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے انسانی آبادیوں کے قریب یہ کچرا بہت بڑی مقدار میں جمع ہوتا رہتا ہے جس سے ناصرف آبی مخلوقات کی زندگی خطرے میں ہے بلکہ اس سے دریا کے اندر اور اس کے قریبی علاقوں کا قدرتی ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایف اے او کی ڈائریکٹر فلورنس رول صوبہ سندھ کے علاقے جامشورو  میں ’کلین انڈس‘ مہم کے دوران رضاکاروں کے ایک اکٹھ سے خطاب کر رہی ہیں۔
FAO/Pakistan
پاکستان میں ایف اے او کی ڈائریکٹر فلورنس رول صوبہ سندھ کے علاقے جامشورو میں ’کلین انڈس‘ مہم کے دوران رضاکاروں کے ایک اکٹھ سے خطاب کر رہی ہیں۔

'زندہ دریا'

یہ سرگرمی پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وزارت اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام 'یو این ڈی پی' کے اشتراک سے دریائے سندھ کے پانی اور قدرتی ماحول کو تحفظ دینے کے منصوبے 'زندہ سندھ' (Living Indus) کا حصہ ہے۔ 

یہ منصوبہ پاکستان کی حدود میں اس دریا کی ماحولیاتی صحت کو بحال کرنے کی کوششوں کو مجتمع کرنے کا اقدام ہے۔ اس کے تحت ابتدائی طور پر 25 ایسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن کے ذریعے دریائے سندھ کے طاس میں قدرتی و ارضی ماحول، تازہ پانی اور ساحلی و سمندری ماحولی نظام کو تحفظ دینے، اسے محفوظ رکھنے اور اس کی بحالی کے لیے قدرتی طریقوں سے کام لیا جانا ہے۔

پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر 'پانی کا مسئلہ' ہے۔ اس اقدام کی بدولت پالیسی سازوں اور شہریوں کو عالمگیر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے ضمن میں دریائے سندھ اور اس سے وابستہ لوگوں کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کے اقدامات کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد میں مدد ملے گی۔

اس منصوبے کے تحت دریائے سندھ کے کناروں پر کچرے کی صفائی کی مہم پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے زیراہتمام شروع کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں صوبہ خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں اس دریا کے کنارے متعدد مقامات پر صفائی مہمات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں طلبہ کے علاوہ عام شہری بڑی تعداد میں شریک ہیں اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے متعدد اداروں کے علاوہ تینوں صوبوں سے غیرسرکاری تنظیمیں بھی 'ایف اے او' کی شراکت دار ہیں۔

پاکستان کی 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمی کسی نہ کسی طور دریائے سندھ سے وابستہ ہے۔
Muhammad Faisal
پاکستان کی 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمی کسی نہ کسی طور دریائے سندھ سے وابستہ ہے۔

زندگی کا ضامن دریا

16 اکتوبر کو خوراک کے عالمی دن پر صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں یہ مہم شروع کرتے ہوئے 'ایف اے او' کی پاکستان میں نمائندہ فلورنس رول کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور صنعتی فضلے نے اس دریا کے لیے بہت سے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت سی جگہوں پر روبہ زوال ماحولیاتی نظام کو کامیابی سے بحال کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا کرنا ممکن ہے اور کلین انڈس مہم کا یہی مقصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ پانچ ہزار سال سے خطے کی سماجی، ثقافتی اور معاشی زندگی کی فعال بنیاد چلا آ رہا ہے تاہم اب یہ خدشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ شاید یہ دریا آئندہ 100 برس تک اپنی یہ حیثیت برقرار نہیں رکھ پائے گا۔

فلورنس رول نے گزشتہ برس دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کے بعد پاکستان میں تعمیر نو کے کام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران دریا کےپانی اور وسائل کو محفوظ رکھنے اور اس کے انحطاط پذیر ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کی ضرورت شدت سے سامنے آئی ہے اور دریائے سندھ کی بقا کے لیے اسے صنعتی و زرعی فضلے اور پلاسٹک کی آلودگی سے پاک رکھنا ضروری ہے۔

دریا کو آلودہ کرنے والے کچرے میں پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈبے، پولی تھین کے بیگ، کھانے پینے کی اشیا کے خالی پیکٹ اور کئی طرح کا دیگر کوڑا کرکٹ شامل ہے۔
FAO/Pakistan
دریا کو آلودہ کرنے والے کچرے میں پلاسٹک کی بوتلیں اور ڈبے، پولی تھین کے بیگ، کھانے پینے کی اشیا کے خالی پیکٹ اور کئی طرح کا دیگر کوڑا کرکٹ شامل ہے۔

14 ارب ڈالر کی ضرورت

پاکستان کی 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمی کسی نہ کسی طور دریائے سندھ سے وابستہ ہے اور ملک کے دس میں سے نو بڑے شہر دریائے سندھ سے صرف 50 کلومیٹر یا اس سے کم فاصلے پر واقع ہیں۔ 

اس وقت پاکستان کو متواتر شدت اختیار کرتی موسمیاتی تبدیلی اور اس سے دریائے سندھ کے طاس میں ہونے والی ممکنہ تباہی کی صورت میں بہت بڑا خطرہ درپیش ہے جبکہ خشکی سے پانی میں منتقل ہونے والی آلودگی نے اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔

دریائے سندھ کے پانیوں کو بھرپور انداز میں رواں رکھنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات پر سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری درکار ہے۔ 'ایف اے او' کی اس مہم میں پانی کے ضیاع کو کم کرنے اور اس کا معیار بہتر کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ خوراک کی پیداوار میں بہتری لانے کے لیے یہ دونوں اقدامات لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔

سماجی ادارے سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی طالبات ’کلین انڈس‘ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
SRSO/Pakistan
سماجی ادارے سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی طالبات ’کلین انڈس‘ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

دریا کے محافظ

صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں سادھو بیلو کے مقام پر اس مہم کے تحت دریائے سندھ کے کنارے کچرا صاف کرنے کی ایک روزہ سرگرمی میں 10 سکولوں کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ انہی میں شامل میٹرک کی طالبہ سلمیٰ کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں کہ دریا میں پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ کس قدر خطرناک ہے۔ اب وہ اس خطرے کو پوری طرح محسوس کرنے لگی ہیں اور مستقبل میں بھی اس دریا کی صحت برقرار رکھنے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیں گی۔ 

سکھر میں اس سرگرمی کا اہتمام کرنے والے غیرسرکاری ادارے 'سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن' کے منتظم نوید میمن کہتے ہیں کہ دریائے سندھ کے کنارے انسانی سرگرمیوں سے پھیلنے والی آلودگی سے آبی حیات کو بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ اس میں سندھ کی نایاب 'انڈس ڈولفن' بھی شامل ہے جسے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے معدومیت کے خطرے سے دوچار جانداروں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ دریائے سندھ کی آبی مخلوق کے نقصان میں دیگر وجوہات کے علاوہ پلاسٹک سمیت اس کچرے کا بھی بڑا حصہ ہے جو بہت بڑی مقدار میں دریا کی نذر ہو رہا ہے۔ 

نوید میمن کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کی صفائی کے لیے جاری اس مہم کا مقصد خاص طور پر سکولوں کے طلبہ کو اس ماحولیاتی خطرے کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ ان کے ادارے کی سرپرستی میں چلائے جانے والے 10 سکولوں کے طلبہ نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس سرگرمی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آگاہی نئی نسل کو مستقبل میں دریا کے قدرتی ماحول کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کی ترغیب دے گی۔

دریائے سندھ پانچ ہزار سال سے خطے کی سماجی، ثقافتی اور معاشی زندگی کی فعال بنیاد چلا آ رہا ہے۔
Muhammad Faisal
دریائے سندھ پانچ ہزار سال سے خطے کی سماجی، ثقافتی اور معاشی زندگی کی فعال بنیاد چلا آ رہا ہے۔

پرانے معاہدے نئے مسائل

تاہم پاکستان میں آبی وسائل کے مربوط انتظام سے متعلق یونیسکو چیئر کے پہلے سربراہ حسن عباس کی رائے میں دریائے سندھ کو آلودگی سے پاک کرنے کے اقدامات کو کماحقہ نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان اور انڈیا کو باہم مل کر ایسا اہتمام کرنا ہو گا جس کی بدولت انڈیا سے آنے والے گندے (سیویج یا استعمال شدہ) پانی کو پاکستان کے دریاؤں میں شامل ہونے سے روکا جا سکے۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے مابین 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی رو سے انڈیا کو اپنے چار بڑے گندے نالوں کا پانی دریائے راوی، ستلج اور بیاس میں چھوڑنے کی اجازت ہے۔ یہ پانی بعدازاں دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریائے راوی اور ستلج کے پانی پر انڈیا کا حق تسلیم کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سال کے بیشتر حصے میں پاکستان کی حدود میں یہ دریا خشک ہوتے ہیں اور انڈیا اپنا استعمال شدہ پانی ان دونوں آبی گزرگاہوں میں چھوڑنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ 

حسن عباس کے مطابق 'زندہ سندھ' کے اقدام کو حقیقی معنوں میں موثر بنانے کے لیے دونوں ممالک کو بات چیت کے ذریعے سندھ طاس معاہدے کی بعض شرائط میں ایسی تبدیلی کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا جس سے پاکستان کے دریاؤں میں انڈیا سے داخل ہونے والی آلودگی کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ بصورت دیگر یہ پانی بالواسطہ طور پر دریائے سندھ کا حصہ بنتا رہے گا اور اسے آلودگی سے کبھی نجات نہیں مل سکے گی۔